Maktaba Wahhabi

517 - 503
۵۔ مدتِ خلافت: حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہونے کے بعد ماہ ربیع الاوّل ۴۱ ہجری میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت مکمل ہوئی اور ۶۰ ہجری میں بائیس رجب کو جمعرات کے دن دمشق میں فوت ہوئے۔ اس طرح ان کی خلافت کی کل مدت انیس سال تین ماہ اور سترہ دن بنتی ہے۔[1] ۶۔ معاویہ کی وفات پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تاثرات: عامر بن مسعود جہنی کہتا ہے: ہم مسجد میں تھے کہ اس دوران ہمیں معاویہ رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر ملی تو ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گئے تو وہ کھانا کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھے تھے، ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے مگر ابھی تک کھانا نہیں لگایا گیا تھا۔ ہم نے کہا: ابن عباس! کیا آپ کو یہ خبر نہیں ملی؟ انہوں نے کہا: کون سی خبر؟ ہم نے کہا: معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے غلام کو دسترخوان اٹھانے کا حکم دیا اور پھر کچھ دیر تک سر جھکا کر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ پھر فرمانے لگے: ایک پہاڑ نے حرکت کی اور پھر سارے کا سارا سمندر میں جا گرا۔[2] قاضی ابو یعلی نے ان کی موت کی خبر کا واقعہ ذکر کرنے کے بعد لکھا: یا اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے تیری رحمت بڑی وسیع ہے اور تو ان سے بہتر انداز میں درگزر فرما سکتا ہے۔[3] ۷۔ ان کی انگوٹھی کا نقش: معاویہ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی: ’’ لِکُلِّ عَمَلٍ ثَوَابٌ‘‘ ایک قول کے مطابق یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: ’’ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘[4] ۸۔ آثار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک: عبدالاعلی بن میمون اپنے باپ سے ان کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قمیص پہنائی تھی جو میں نے سنبھال کر رکھی ہے، آپ نے ایک دن اپنے ناخن ترشوائے تو میں نے ان کے تراشوں کو ایک شیشی میں محفوظ کر لیا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے وہ قمیص پہنا دینا، اور تراشوں کا سرمہ بنا کر میری آنکھوں اور منہ میں چھڑک دینا۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے مجھ پر رحم فرمائے۔[5] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسی اور آپ کی ذات سے منفصل آثار مبارکہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تبرک حاصل کرنا، اس کا شمار تبرک کی مشروع قسموں میں ہوتا ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اس کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول رہا۔[6] علاوہ ازیں سلف صالحین علیہما السلام بھی اس پر عمل پیرا رہے، اس کے چند دلائل مندرجہ ذیل ہیں: ا: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، اس وقت میں
Flag Counter