Maktaba Wahhabi

59 - 503
تم کہاں کھو گئے تھے؟ وہ جواب دیں گے: میں عرش کے نیچے ایک باغ میں تھا۔‘‘ خ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، مجھ سے تمھاری ملاقات جنت کے دروازے پر ہو گی۔[1] امام ذہبی مندرجہ بالا اور ان جیسی دیگر احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ان احادیث کا موضوع اور من گھڑت ہونا بالکل واضح ہے۔[2] و اللہ اعلم امام شوکانی نے ان میں سے زیادہ تر احادیث کو اپنی کتاب ’’الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔[3] ان میں سے ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد ابن کثیر فرماتے ہیں: اس کے بعد ابن عساکر نے بہت ساری موضوع احادیث کو ذکر کیا ہے۔[4] مگر تعجب ہے کہ انہوں نے اپنے حفظ و اطلاع کے باوجود ان کی نکارت اور ضعف کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔[5] ۲۔باطل احادیث: ابن جوزی فرماتے ہیں کہ’’ حامل سنت کے دعوے دار بعض لوگوں نے تعصب سے کام لیتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کئی احادیث وضع کر ڈالیں جس سے مقصود رافضیوں کو غضب ناک کرنا تھا، اس لیے کہ انہوں نے متعصبانہ انداز میں ان کی مذمت میں وضع احادیث کا ارتکاب کیا تھا۔ ہمارے نزدیک ان دونوں گروہوں نے قابل نفرت غلط کاری کا مظاہرہ کیا۔‘‘[6] ان کی مذمت میں وضع کردہ چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں: ا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے پاس ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو میری سنت کے علاوہ کسی اور چیز پر مرے گا۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ ادھر آ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ پکڑا اور باہر نکل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ بھی سماعت نہ کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قائد اور اس کے زیر قیادت شخص پر لعنت کرے، یعنی اس دن جب بدکردار لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوں گے۔ [7] یہ حدیث باتفاق محدثین موضوع اور من گھڑت ہے۔ حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور نہ اس کی سند ہی معروف ہے۔[8]
Flag Counter