Maktaba Wahhabi

67 - 503
اعتماد تھا۔[1] یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے ابوسفیان لشکر اسلام کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی دینی حمیت و غیرت کو اس طرح ابھارتے: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، تم عرب قوم کے محافظ اور اسلام کے معاون و مدد گار ہو۔ جبکہ تمہارے دشمن روم کے محافظ اور شرک کے انصار و معاونین ہیں۔ میرے اللہ! یہ دن تیرے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ یا اللہ! اپنے بندوں کی نصرت فرما۔[2] ۲… عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب ۱۳ ھ میں پہلے خلیفہ اسلام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور ان کی جگہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے بنو امیہ پر مکمل اعتماد اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے نہ تو بنو امیہ کے کسی فرد کو اس کے منصب سے معزول کیا اور نہ کسی پر کوئی اعتراض ہی کیا۔ سب لوگ عمر رضی اللہ عنہ کی سخت مزاجی سے بخوبی آگاہ تھے اور اس امر سے بھی کہ آپ ہمیشہ اپنے عمال اور ذمہ داران کے معاملات کی ٹوہ لگاتے رہتے اور ان کے اعمال و اخبار کی حقیقت سے آشنا رہتے ہیں اور بڑے حزم و احتیاط اور باریک بینی سے ان کا محاسبہ کرتے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کے زمانہ خلافت میں ان کا اپنے مناصب پر مسلسل فائز رہنا ان کی امانت و دیانت اور ذمہ داریوں کی کما حقہ ادائیگی پر دلالت کرتا ہے۔ اس دوران یزید بن معاویہ بدستور دمشق کے والی رہے۔ جبکہ شام میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے زیر ولایت علاقہ میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔[3] ۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی قسمت کا ستارہ طلوع ہونے لگا: خلیفۃ المسلمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سیاسی اور ادارتی میدان عمل میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی قسمت کا ستارہ طلوع ہونے لگا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب فاروق اعظم نے ۱۵ھ میں انہیں قیساریہ[4] کو فتح کرنے کی ذمہ داری تفویض کی۔[5]انہیں یہ ذمہ داری ایک خط کے ذریعے تفویض کی گئی جس کی عبارت یہ تھی: میں نے تمہیں قیساریہ کو فتح کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ اس کی طرف روانہ ہو جائیں۔ ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے اللہ سے نصرت کی درخواست کریں اور بکثرت ’’لا حول و لا قوۃ الا باللّٰه العلی العظیم‘‘ پڑھا کریں۔ اللہ ہمارا رب ہے، ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں وہی ہمارا مولیٰ ہے۔ وہ بڑا اچھا مولیٰ اور بہت اچھا مددگار ہے۔[6] انہیں اس انتہائی ذمہ دارانہ مہم، میدان عمل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کا کڑا امتحان تھا جس میں وہ ہر اعتبار سے کامیاب رہے وہاں لشکر کے ساتھ قیساریہ کی طرف روانہ ہوئے جسے ان کے لیے ان کے بھائی
Flag Counter