Maktaba Wahhabi

70 - 503
انہیں اس مضمون پر مشتمل خط لکھا: میرے بیٹے! اللہ کی قسم! تیرے جیسے بیٹے کو کسی ماں نے کم ہی جنم دیا ہو گا۔ خلیفۃ المسلمین نے تجھے یہ جو اتنا بڑا منصب عطا کیا ہے تو ان کی اطاعت کرنا، وہ کام تجھے پسند آئے یا نہ آئے۔[1] بعض لوگوں نے اور خاص طور سے ان کے بزرگوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی کم سنی کے باوجود منصب ولایت پر فائز کر دیا جبکہ ان سے بہتر اور بڑی عمر کے لوگ بھی موجود ہیں۔ جب اس کی اطلاع عمر رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو انہوں نے اس کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اس کی ولایت کے حوالے سے مجھ پر اعتراض کرتے ہو، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ’’یا اللہ! اسے ہادی اور مہدی بنا اور اس راہ راست پر رکھنا۔‘‘[2] ۳۔ ایک عظیم قافلہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کی آمد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی: حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ انہیں دوسروں سے بڑھ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان خوبیوں کا ادراک تھا جن کی وجہ سے وہ قیادت و سیادت کا پورا پورا استحقاق رکھتے تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک بڑے جلوس کے ساتھ ان کا استقبال کیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا: اس بڑے قافلے کے صاحب تم ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: اس امر کے باوجود کہ مجھے تمہارے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ ضرورت مند لوگ دیر تک تمہارے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا: آپ کی یہ اطلاع درست ہے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ میں تمہیں ننگے پاؤں چل کر سرزمین حجاز پہنچنے کا حکم دوں۔ اس پر وہ گویا ہوئے: امیر المومنین! ہم جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں دشمن کے جاسوس بڑی کثرت کے ساتھ موجود ہیں، لہٰذا ایسے اقدامات کرنا ضروری ہیں جن سے اسلام اور اہل اسلام کی شان و شوکت کا مظاہرہ ہو اور وہ اس سے مرعوب ہوں۔ اگر آپ مجھے حکم دیں گے تو یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اگر آپ روک دیں گے تو اسے ختم کر دیا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تمہارا یہ کہنا درست ہے تو یہ ایک دانشمندانہ بات ہے اور اگر غلط ہے تو پھر یہ ایک ادیب کا دھوکہ ہے۔[3] اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: امیر المومنین! اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہ تو میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ یہ سن کر ایک آدمی کہنے لگا: امیر المومنین! اس نوجوان نے تمہاری گرفت سے کتنی خوبصورتی کے ساتھ چھٹکارا حاصل کیا۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان کی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی تو ہم نے انہیں اتنی بڑی ذمہ داری کے لیے پابند کیا ہے۔[4] ایک روایت میں ہے کہ یہ بات کہنے والے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے، جو کہ اس وقت اس عظیم الشان قافلہ میں شامل تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لیے آیا تھا۔[5]معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ جواب اس بات
Flag Counter