Maktaba Wahhabi

73 - 503
صلاحیتوں کو بنظر استحسان دیکھا کرتے تھے اور اس کا برملا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن اپنے ہم نشینوں سے فرمایا: تم قیصر و کسریٰ اور ان کی شان و شوکت کا ذکر کرتے ہو جبکہ تمہارے پاس معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں۔[1] ۴۔ معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے محاذ پر: جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام کی ولایت کا منصب سنبھالا اور حضرت عمرو بن العاص مصر فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو اسلامی مملکت شامی حدود کی حفاظت و توسیع کی ذمہ داری اس عمل سے مربوط ہو گئی۔ اس دوران معاویہ رضی اللہ عنہ نے مندرجہ ذیل دو اہم ترین عسکری منصوبوں کی تکمیل میں کامیابی حاصل کی: موسم سرما اور موسم گرما میں رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے نظام کی تشکیل اور اسلامی تاریخ میں پہلی بار بحری بیڑے کی تیاری۔ (۱)…رومیوں کے ساتھ موسم سرما اور موسم گرما میں جنگ کرنے کا نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تشکیل پایا جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ رومیوں کو سپاہ اسلام کے ہاتھوں پے درپے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں شام اور مصر ان کے ہاتھوں سے نکل گئے جبکہ اس وقت یہ دونوں علاقے اقتصادی، سیاسی اور فوجی اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ مگر رومیوں نے ان ہزیمتوں کو تسلیم نہ کیا اور انہوں نے ان پہاڑی راستوں سے شام پر حملے جاری رکھے جو انہیں رومی سلطنت کے دیگر علاقوں سے جدا کرتے تھے۔ جب خلیفۃ المسلمین ۱۶ھ میں شام کے دورے پر آئے تو وہ اس صورت حال کو دیکھ کر فرمانے لگے: میں چاہتا ہوں کہ ان پہاڑی گزرگاہوں کے اس طرف تو رومیوں کا عمل دخل رہے اور اس طرف ہمارا۔[2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے شام کے اس دورے کے دوران یہ اصطلاح رائج کی اور آپ کے حکم سے شام کے ان پہاڑی راستوں کو بند کر دیا گیا۔[3]اس امر کا اہتمام بھی موجود ہے کہ ان اسلامی سرحدی شہروں پر رومیوں کے حملوں کا مقصد دیگر رومی شہروں کا دفاع کرنا اور مسلمان سپاہ کی طاقت کو کمزور کرنا ہو۔ مگر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دشمن کے شہروں کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا جس سے مسلمانوں کے علاقے محفوظ ہو گئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس مقصد کے حصول کے لیے دفاعی وسائل کو پہلے سے بہتر بنایا اور مختلف شہری مراکز اور چھاؤنیوں کو اگلے مورچوں میں تبدیل کر دیا جن کی ذمہ داری مشکل حالات کا سامنا کرنا اور دشمن کو خبردار کرنا تھا۔ ان مورچوں کو دشمن پر حملہ کرنے والی سپاہ کے لیے روانگی کے مراکز کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ جن میں سے بعض کی قیادت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس کی۔ مثلاً ۲۲ھ میں دس ہزار کے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے سرزمین روم میں داخل ہوئے، اور ۲۳ھ[4] میں روم میں دور تک پیش قدمی کرتے ہوئے عمودیہ تک جا پہنچے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے
Flag Counter