Maktaba Wahhabi

75 - 503
اگرچہ شام کے اندرونی حالات میں استحکام آ چکا تھا اور ہر طرف اسلام کا دور دورہ تھا، اور اس علاقہ میں رومیوں کی طرف سے بے چینی پھیلانے کی کوششوں میں نمایاں طور پر کمی آ چکی تھی البتہ اس کی سرحد سرزمین روم سے ملتی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ ان علاقوں میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے جہاد کے لیے میدان کھلا تھا جن کا سیاسی قد کاٹھ عثمانی خلافت کے اواخر میں خاصا بڑھ چکا تھا اس لیے کہ وہ ان والیوں میں شامل تھے جنہیں حضرت عثمان نے باہم مشاورت کے لیے اس وقت جمع کیا تھا جب فتنہ کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے تھے اس اجتماع میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کچھ خاص آراء کا اظہار کیا جنہیں بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔[1] ۱۔ حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کی فتوحات: بلاد شام پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ولایت کے دوران حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ کا شمار جہاد کے ممتاز امراء میں ہوتا تھا۔ جب خلافت عثمانی کے آغاز میں رومیوں نے شام کے مسلمانوں پر زبردست چڑھائی کی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مدد کے حصول کے لیے خط لکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے والی کوفہ ولید بن عقبہ کے نام خط لکھا کہ میرا خط ملتے ہی آٹھ سے دس ہزار تک کے ایسے لوگوں پر مشتمل ایک لشکر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں جن کی شجاعت و بسالت اور اسلام سے وابستگی تمہارے نزدیک مسلمہ ہو۔[2] خط پڑھتے ہی ولید بن عقبہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ نے اس محاذ پر مسلمانوں کی بڑی اچھی آزمائش کی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ شہر واپس دلا دئیے ہیں جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا تھا اور کئی نئے شہر بھی فتح کروا دئیے ہیں اور انہیں مال غنیمت اور اجر و ثواب سے نوازتے ہوئے صحیح و سالم واپس لوٹا دیا۔ ہم اس پر اللہ رب العزت کے شکر گزار ہیں۔ امیر المومنین نے ایک خط کے ذریعے سے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم میں سے آٹھ ہزار سے لے کر دس ہزار لوگوں پر مشتمل ایک بڑا لشکر شام بھیجوں تاکہ تم وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر سکو اور یہ اس لیے کہ رومی ان پر لشکر کشی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اس میں تمہارے لیے اجر عظیم بھی ہے اور اس کا فضل و کرم بھی تمہارے شامل حال رہے گا۔ اللہ تم پر رحم کرے۔ اٹھو اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ روانہ ہو جاؤ۔ لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور تین دن کے اندر اندر کوفہ سے آٹھ ہزار لوگ اس مقصد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر چند دنوں میں شام جا پہنچے۔ اہل شام پر مشتمل لشکر کی قیادت حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کے لشکر کی قیادت سلیمان بن ربیعہ باہلی کر رہے تھے اور انہوں نے آتے ہی سرزمین روم پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ جس کے نتیجہ میں بہت سارے قیدی اور مال غنیمت ان کے ہاتھ لگا اور انہوں نے بہت زیادہ قلعے فتح کر لیے۔[3]
Flag Counter