Maktaba Wahhabi

78 - 503
خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ شرط بھی لگائی کہ اس کے لیے نہ تو آپ کسی کا انتخاب کریں گے اور نہ قرعہ اندازی ہی کریں گے۔ آپ لوگوں کو اختیار دیں گے ان میں سے جو شخص خوشی سے بحری جنگ میں شرکت کرنا چاہے اسے اپنے ساتھ لے لیں اور اس کے ساتھ تعاون کریں۔[1] جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ خط پڑھا تو وہ قبرص کی طرف بحری سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ انہوں نے ساحلی پٹیوں پر رہنے والے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ کشتیاں تیار کر کے انہیں عکا کے ساحل کے قریب لے جائیں تاکہ مسلمان ان پر سوار ہو کر قبرص کی جانب روانہ ہو سکیں۔[2] ۴۔ غزوہ قبرص: معاویہ رضی اللہ عنہ نے غازی لشکر کے لیے کشتیاں تیار کرنے کا حکم دیا اور ان کی روانگی کے لیے عکا کی بندرگاہ کو منتخب کیا۔ یہ کشتیاں کثیر تعداد میں تھیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ اپنی زوجہ محترمہ فاختہ بنت قرظہ کو بھی کشتی پر سوار کرایا۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اپنی بیوی ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ساتھ اس غزوہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے۔[3] یہ وہی ام حرام رضی اللہ عنہا ہیں جن کے بارے میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو کھانا کھلایا کرتیں۔ یہ خاتون حضرت عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: ’’میری امت کے کچھ لوگوں کو میرے سامنے پیش کیا گیا جو کہ فی سبیل اللہ جہاد کر رہے ہوں گے۔ وہ سمندر پر اس طرح سوار ہیں جس طرح بادشاہ تختوں پر بیٹھا کرتے ہیں۔‘‘ ام حرام رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کرے۔ آپ نے اس کے لیے دعا کی اور پھر دوبارہ سو گئے۔ جب آپ بیدار ہوئے تو ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے والی بات دہرائی۔ ام حرام نے اس لشکر میں شامل ہونے کے لیے پہلے جیسی دعا کرنے کی درخواست کی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’آپ پہلے لوگوں میں سے ہیں۔‘‘ ام حرام رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ امارت میں سمندری سفر کیا۔ جب وہ سمندر سے باہر نکلیں تو اپنی سواری کے جانور سے گر گئیں۔ جس کی وجہ سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔[4] اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی کو بحری جہادی سفر کے لیے مجبور نہیں کیا تھا، اس کے باوجود مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر آپ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔[5] اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی نظروں میں دنیا و ما فیہا کی کوئی قدر و منزلت نہیں تھی۔ اگرچہ دنیا کے تمام دروازے ان کے لیے کھول دئیے گئے تھے اور وہ اس کی نعمتوں سے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے مگر وہ ان چیزوں کو قطعاً کوئی اہمیت نہ دیتے تھے اور یہ اس لیے کہ یہ بات ان کی گھٹی میں داخل کر دی گئی تھی کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر بھی ہے اور اسے بقا بھی حاصل ہے اور یہ کہ اللہ نے انہیں اس لیے منتخب کیا ہے کہ اس کے دین کی نصرت و حمایت کی جائے۔ دنیا میں
Flag Counter