Maktaba Wahhabi

94 - 503
دوسروں سے بڑھ کر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید بن ابو العاص کو مکہ مکرمہ کا عامل بنایا۔ ابوسفیان بن حرب کو نجران کا اور خالد بن سعید کو بنو مدحج سے زکوٰۃ وصول کرنے کا مسؤل مقرر فرمایا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید کو بحرین کا عامل قرار دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف ان لوگوں کو ہی عامل بنایا جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا تھا اور ان کے خاندان اور ان کے قبیلہ سے بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو شامی فتوحات کے لیے والی مقرر کیا اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا اور ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے بھائی معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کو والی بنایا۔[1] اس جگہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اپنی منصبی ذمہ داریاں بانداز احسن پوری کیں یا نہیں؟ علمی حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے قرابت داروں میں سے جن لوگوں کو منصب ولایت پر فائز کیا تھا انہوں نے اپنے اپنے زیر نگیں علاقوں کے معاملات کی انجام دہی کے لیے اپنی صلاحیت و طاقت کا لوہا منوایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں بہت سارے شہر اور علاقے فتح کروائے اور انہوں نے اپنی رعیت میں عدل و احسان پر کاربند رہنے کا طریقہ اپنایا۔[2] مثلاً معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ولایت کے دوران لوگوں کے ساتھ بہترین رویہ اختیار کیے رکھا جس کی وجہ سے وہ آپ کے ساتھ بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے حکمرانوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعاگو رہو اور وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے رہیں، تمہارے حکمرانوں میں سے بدترین لوگ وہ ہیں کہ تم ان سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنتیں برسائیں۔‘‘[3] قاضی ابن العربی نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کا اثبات کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا کاتب مقرر فرمایا اور یہ اعزاز صرف انہی کے حصہ میں آیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی دولت اسلامیہ کے والی رہے اور آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین خلفاء راشدین کے بھی، صرف اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت حسن بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما نے بھی آپ کے ساتھ صلح کرنے کے بعد ان کی خلافت کو تسلیم کیا۔[4] ۱۳۔ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے اسباب: زہری فرماتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بارہ سال تک امیر المومنین کے منصب پر فائز رہے۔ پہلے چھ سالوں میں کسی بھی شخص نے آپ پر انگلی نہیں اٹھائی۔ قریش عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے زیادہ آپ سے محبت کرتے تھے اور یہ اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ ان پر سختی روا رکھتے تھے، جبکہ عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نرم رویہ اپناتے اور ان سے صلہ رحمی کیا کرتے تھے۔
Flag Counter