Maktaba Wahhabi

286 - 677
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی میدانِ دعوت میں حکمت کی ایک صورت ان کا امور کی مکمل چھان بین اور تصدیق ہے۔ ’’ایک بار ایک یہودی عورت ان سے کھانا مانگنے آئی۔ اس نے کہا: تم مجھے کھانا دے دو اللہ تعالی تمھیں دجال اور عذاب قبر کے فتنے سے پناہ دے دے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک اس عورت کو باتوں میں لگائے رکھا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنے ہاتھ بلند کر کے پھیلا دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دجال اور عذاب قبر کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ رہے تھے۔‘‘[1] امت اسلامیہ اکثر مواقع پر دعوت میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حکمت بھرے اسلوب اور ان کی معاملہ فہمی سے مستفید ہوئی۔[2] ۲۔ احسن طریقے سے وعظ کا اسلوب: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دعوت الی اللہ میں مواعظ حسنہ کا اسلوب اپنایا۔ کبھی تو وہ ترغیب دلاتیں اور کبھی کبھار ترہیب کو بھی استعمال کرتیں ۔ ذرا غور کریں وہ مومنات کو پردہ کی اہمیت بتلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضی سے انھیں خوف بھی دلاتی ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی ہیں ۔ وہ ان سے فرماتی ہیں : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((مَا مِنِ امْرَاَۃٍ تَضَعُ ثِیَابَہَا فِیْ غَیْرِ بَیْتِ زَوْجِہَا اِلَّا ہَتَکَتْ السَّتْرَ بَیْنَہَا وَ بَیْنَ رَبِّہَا)) [3] ’’جو عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کہیں اپنے کپڑے اتارتی ہے وہ اس کے اور رب کے درمیان حائل شرم و حیا کے پردے کو پھاڑتی ہے۔‘‘ وہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف کو جب ان کا کچھ لوگوں سے کسی معاملے میں جھگڑا تھا، نصیحت کرتے ہوئے فرماتی ہیں :’’اے ابو سلمہ! تم زمین چھوڑ دو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter