Maktaba Wahhabi

18 - 108
جاتی ہے اور اس شخص کی جھوٹی عزت خاک میں مل کر رہ جاتی ہے۔ حقیقی عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے: [وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ][1] (بے شک عزت اللہ اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔) تقویٰ کی چند مثالیں: (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَولَا اِنّی اَخَافُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الصَّدَقَةِ لَاَکَلْتُهَا»[2] (اگر مجھے اس کے صدقے میں سے ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں یقینا اس کو کھا لیتا۔ ) (۲) سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ حد درجہ کے متقی انسان تھے۔ اپنے دورِ خلافت میں مسلمانوں کے بیت المال سے وظیفہ لیتے تھے۔ اپنی آخری وصیت میں فرمایا۔ میں نے اب تک جو رقم حاصل کی ہے ساری واپس جمع کرادو۔ ایسا نہ ہو کہ میں نے جتنی تنخواہ لی ہے اتنا حق ادا نہ کیا ہو۔ ان کا ایک غلام مزدوری کر کے لاتا تھا۔ اپنی مقررہ آمدنی میں سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی کبھی کبھی کھانے کے لیے دیتا تھا۔ ایک دفعہ وہ کما کر لایا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ کھا لیا۔ غلام نے عرض کیا۔ کیا آپ رضی اللہ عنہ جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کیسا ہے؟ جو آپ رضی اللہ عنہ نے تناول فرمایا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیسا ہے؟ کہنے لگا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص سے جھوٹ موٹ کی کہانت کی تھی۔ آج اس نے میری کہانت (نجومیوں کی طرح باتیں بتانا) کی مزدوری دی ہے۔ یہ وہی ہے جو آپ رضی اللہ عنہ نے کھایا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کھایا تھا۔ منہ میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی۔ (بخاری) (۳) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و حضر کے ساتھی تھے۔ قبر میں بھی ساتھ ہیں اور جنت میں بھی ساتھ ہوں گے۔ انبیاء کے بعد اگر سب سے زیادہ کسی کا مرتبہ ہے تو وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اتنی فضیلت کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ اللہ سے بہت
Flag Counter