Maktaba Wahhabi

107 - 411
انجیل میں بلکہ نہ ایسی کوئی اور سورۃ قرآن میں اتری ہے۔[1] (مؤطا مالک) حدیث شریف میں ہے خدا نے فرمایا ہے کہ سورۂ فاتحہ مجھ میں اور میرے بندے میں تقسیم ہے، یعنی پہلا حصہ خدا کی تعریف ہے، دوسرا بندے کی درخواست اور دعا ہے۔ حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے سورہ فاتحہ کو اپنے اور بندہ میں تقسیم کردیا ہے۔ میرا بندہ جو مانگے میں اُس کو دوں گا۔ جب بندہ نماز میں کہتا ہے: {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} اس کے جواب میں خدا فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ اور جب بندہ {اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی۔ اسی طرح مالک یوم الدین، اس سے آگے کے الفاظ دعائیہ ہیں ، وہ سب بندے کے لیے ہیں، اور بندہ جو مانگتا ہے اُس کو ملے گا۔[2] (ماخوذ من ابن کثیر:1/27-30) تفسیر سورۂ فاتحہ: انسان دنیا میں متمدن طبع پید اہوا ہے، اس کے تعلقات مختلف ہیں، اوپر کی جانب اُس کے ماں باپ دادا نانا وغیرہ بزرگ ہیں، نیچے کی جانب اولاد در اولاد ہے، درمیانی درجہ میں بیوی اور مساوی درجہ کے احباب ہیں۔ ان سب سے بلند تر خدا سے تعلق ہے۔ یہ تعلقات واقعی ہیں، ان سے کسی کو انکار نہیں۔ ان سب تعلقات کے فرائض اور حقوق ادا کرنے کا نام اصطلاحِ قرآن شریف میں ’’صراط مستقیم‘‘ ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: { قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ
Flag Counter