Maktaba Wahhabi

117 - 411
سے یہ کہتے ہیں کہ تثلیث کو تو کروڑوں انسان نے سمجھ لیاہے لیکن حروف مقطعات کو کس انسان نے سمجھا ہے؟ ایک نے بھی نہیں۔‘‘ (ص:28) جواب: ہم تو قرآن مجید کا کوئی لفظ ناقابل فہم نہیں کہتے ۔ نہ صرف ہم بلکہ سلف سے خلف تک اس کے قائل چلے آئے ہیں۔ امام نووی کا قول صاحب اتقان نے لکھا ہے: ’’یبعد أن یخاطب اللّٰه عبادہ بما لا سبیل لأحد من الخلق إلی معرفتہ۔‘‘[1] یعنی یہ بات بعید از عقل ہے کہ خدا بندوں کو ایسے کلام سے مخاطب کرے جس کووہ نہ سمجھتے ہوں۔ علاوہ اس کے ایک مضمون بعید الفہم ہوتا ہے دوسرا ضد الفہم، ان دو میں فرق ہے، مثلاً برقی کا م جو آج کل ترقی یاب ہورہا ہے دیہات میں کسی دیہاتی کی سمجھ میں نہ آئے تو کہا جائے گا اس کے حق میں بعید الفہم ہے۔ لیکن دو دونے پانچ، ضدالفہم ہے۔ اس کا قائل اگر پہلی مثال کو اپنی تائید میں پیش کرے تو کون اس کو صحیح جانے گا؟ قرآن میں اگر کوئی لفظ مبہم ہے تو بعید از فہم ہے۔ تثلیث ضد الفہم ہے۔ اس ہماری مثال کا سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ تثلیث کی تصویر پہلے معلوم ہو۔ ہم اپنے لفظوں میں تو اُس کی تصویر دکھا نہیں سکتے، اکابر نصاریٰ کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ تثلیث کی وضاحت: مقدس اتھاناسیس جس کے عقیدے کو مسیحی قوم میں مدار نجات جانا گیا ہے، اُس میں لکھا ہے: ’’جوکوئی نجات چاہتا ہے اُس کو سب باتوں سے پہلے ضرور ہے کہ عقیدہ جامعہ رکھے۔ عقیدہ جامعہ یہ ہے کہ ہم تثلیث میں واحد خدا کی اور توحید
Flag Counter