Maktaba Wahhabi

131 - 411
کے بعد نازل ہوئی ہیں مشکوک ہوں گی۔ اور ان تمام صفات سے خالی ہوں گی جن کا ذکر ان آیات میں ہے۔ پس حقیقت اور صحیح یہی ہے کہ ذلک الکتاب سے بائبل مقدس ہی مراد ہے۔ کیونکہ بائبل مقدس کاخاص نام قرآن شریف میں الکتاب ہی آیا ہے جو لفظ بائبل کا ہم معنی ہے۔ اور بائبل مقدس ہی وہ کتاب ہے جس کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور خدا سے ڈرنے والوں کو الٰہی راستہ بتاتی ہے۔ چنانچہ بائبل مقدس کا دوسرا نام قرآن میں ہدایت اور تیسرا نام موعظت بھی آیا ہے۔‘‘ (سلطان التفاسیر، ص:29) برہان: پہلی وجہ کا جواب پہلے ہو چکا کہ ’’ذلک‘‘ بمعنی ’’ھذا‘‘ بکثرت قرآن مجید میں آیاہے۔ دوسری وجہ کا جواب بھی آسان ہے جو علم نحو کے اصول پر مبنی ہے۔ علم نحو میں اسم کی ایک قسم اسم جنس بھی ہے ۔ جس کا استعمال قلیل ، کثیر، جز، اور کل سب پر ہوتا ہے۔ ہندی میں اس کی مثالیں گیہوں، چاول، گوشت، کتاب اورقرآن بھی ہے۔ مسلمانوں کو آپ نے سنا ہوگا آپس میں کہا کرتے ہیں: ’’میاں آج تم نے قرآن تلاوت کیا تھا؟ ہاں بھائی آج میں نے نماز فجر کے بعدقرآن پڑھاتھا۔‘‘ کیا سارا؟ نہیں بلکہ اسم جنس کے ماتحت جیسا موقع ہو۔ اسم جنس کے متعلق دوسرا قانون یہ بھی ہے کہ جو وصف اُس کا ذاتی ہو وہ جیسا کل میں ہوگا جزء میں بھی علی قدرہ پایا جائے گا۔ مثلا پانی اسم جنس ہے۔ جو تاثیر (برودت) کثیر پانی میں ہے وہی ایک قطرہ میں بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جملہ قرآن کی نسبت یہ وصف آیا ہے: { اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ} [الإسرائ: 9]
Flag Counter