Maktaba Wahhabi

132 - 411
’’تحقیق یہ قرآن مضبوط راستے کی ہدایت کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح ’’ریب‘‘ کی نفی جملہ قرآن سے کی گئی۔ چنانچہ ارشاد ہے: { تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ} [السجدۃ: 2] پس اسم جنس کے قاعدے سے جزء قرآن (ایک سورہ) بھی قرآن ہے۔ اور جو وصف عدم ریب اور ہدایت سارے قرآن میں ہے وہ اُس کے ہر جزء میں بھی ہے۔ بائبل کی مزید تحقیق زیر آیت: {مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ} آئے گی۔ إن شاء اللّٰه ، فانتظر۔ لَا رَیْبَ: پادری صاحب نے {لَا رَیْبَ} کی آیت پر بھی دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلائی ہے۔ یعنی بعض ملحدین کا اعتراض نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’اگر {لَا رَیْبَ فِیْہِ} کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ قابل شک نہیں (تو غلط ہے) کیونکہ ہم شک کرتے ہیں۔ اوراگر اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کے نزدیک وہ قابل شک نہیں ہے تو اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔‘‘ (ص:30) جواب: نہ اُن ملحدین معترضین نے لاریب کا محاورہ سمجھا نہ پادری صاحب نے غور فرمایا۔ محل اس کلام کا وہاں ہوتا ہے جہاں متکلم علی الیقین کوئی بات صحیح کہے۔ مخاطب کے شک سے انکارکرنا مقصود نہیں بلکہ محض کلام کا علی وجہ الیقین ہونا بتایا جاتا ہے۔ علم معانی و بیان میں جو قاعدہ ’’اِنَّ‘‘ اور ’’اَنَّ‘‘ کا لکھا ہے کہ کلام کو مؤکد اورمخاطب کو یقین دلانے کے لیے آتے ہیں جیسے یہ شعر:
Flag Counter