Maktaba Wahhabi

143 - 411
کہ ہم عیسائیوں کے سامنے قرآن کی واضح سے واضح آیت پیش کرتے ہیں: { مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ} [المومنون: 91] اس وا ضح تر آیت کی بھی تاویل کی جاتی ہے کہ اس میں اُس ولد کی نفی ہے جو باقاعدہ نطفہ سے پیدا ہو۔ مسیح کی ولدیت ایسی نہیں بلکہ وہ روحانی ہے۔ ایسے مواقع کے لیے حضرت علی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ قرآنی نصوص کو پھیریں اُن کے سامنے عقلی دلیل پیش کرو۔ نہایت معقول ہے۔ اس میں قرآن کے ہادی ہونے پر حرف نہیں بلکہ مخاطب کے ذہن کا نقص ہے۔ شیخ سعدی اُستاد فلاسفر اخلاق نویس ہو کر کہتے ہیں آنکس کہ بقرآن و خبر زو نرہی اینست جوابش کہ جوابش ندہی[1] قرآن و حدیث سے جس کی تسلی نہ ہو اُس کو جواب دینے سے شیخ منع فرماتے ہیں۔ مگر حضرت علی کی شان تو ان سے ارفع ہے وہ جواب سے منع نہیں فرماتے بلکہ نوعیتِ جواب اور بتاتے ہیں۔ یعنی نقلی کی بجائے عقلی۔ کیسا حکیمانہ اور عارفانہ اصول ہے؟ پادری صاحب کی نظر میں یہ بھی قابل اعتراض ہے۔ سچ ہے گل ست سعدی و در چشم دشمناں خارست[2] پادری صاحب کی تیسری بات: اس کے بعد آپ نے تیسری بات لکھی ہے: ’’تیسری غور طلب بات یہ ہے کہ ہدایت کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ نہایت واضح اور صریح ہو۔ حالانکہ قرآن شریف میں یہ بات موجود نہیں
Flag Counter