Maktaba Wahhabi

168 - 411
کے معنی نہیں دیتا۔ پس {اسْتَوْقَدَ} کے معنی ہیں ’’آگ جلائی۔‘‘ مگر ’’جلائی‘‘ استمرار فعل ’’جلاتا رہا‘‘ کو مستلزم نہیں۔ استمرار اسی صورت میں ہوگا کہ آگ جلانے والا لکڑیوں سے آگ کو مدد دیتا رہے۔ جب یہ اس نے نہ کیا تو آگ بجھنے میں اُس کا قصور ہے۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ میں ان سب باتوں کو کھول دیا ہے۔ علاوہ اس کے تشبیہ میں کسی قصور بے قصور پر نظر نہیں ہوتی بلکہ دونوں میں ہیئت کذائی پر نظر ہوتی ہے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ تشبیہ غلط ہے: زید عمرو دوبھائی ہیں، زید بیماری کی وجہ سے فیل ہوا۔ عمر و غفلت اور کھیل کی وجہ سے ۔ اُن کے باپ سے کوئی پوچھتا ہے لڑکوں کا امتحان کیسے رہا؟ وہ کہتا ہے: ’’جیسے زید فیل ہوا ویسے عمرو فیل ہوا۔‘‘ حالانکہ ان میں ایک کا قصور ہے دوسرے کا نہیں۔ مگر متکلم کو اس سے غرض نہیں وہ صرف نتیجہ بتاتا ہے۔ فاندفع ما أو رد۔ تیسرا سوال: {اَصَابِعَھُمْ} أصابع کا استعمال یہاں پر معیوب ہے ’’أناملھم‘‘ کا مستحسن تھا۔ کیونکہ ’’أصابع‘‘ کا اطلاق پوری اُنگلیوں پر ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص اپنی پوری اُنگلیوں کو اپنے کان میں نہیں ڈالتا ہے۔ بلکہ اپنی اُنگلیوں کے سروں کو اپنے کانوں میں ڈالتا ہے۔ اور اُنگلیوں کے سروں کے لیے ’’أنامل‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص: 59) برہان: پادری صاحب نے غور نہیں فرمایا یہاں خوف کی شدت بطور مبالغہ کے بتانا مقصود ہے۔ معمولی آواز کے لیے ’’أنامل‘‘ کام دے سکتی ہیں مگر جب سخت شدت کی آواز ہو (جیسی ریلوے انجن کے قریب) تو اُس وقت انسان اُس مکروہ آواز سے بچنے کے لیے اتنی کوشش کرتا ہے کہ ہو سکے تو ساری اُنگلی کان میں داخل کردے۔
Flag Counter