Maktaba Wahhabi

198 - 411
جواب نمبر2: ہر کسی معترض کے اعتراض کو نقل کر دینا کچھ مفید کام نہیں بلکہ اُس کا وزن بھی کرنا چاہیے۔ ورنہ ’’بائبل کے مضامین متناقضہ‘‘ مصنفہ مسٹر بریڈ لا (دہر یہ فرنگی) سے ہم بھی بہت کچھ نقل کر سکتے ہیں۔ بھلا یہ آپ کا منقولہ اعتراض کیا وزن رکھتا ہے جب کہ قرآن بلند آواز سے مخاطبوں کو للکارتا رہا اور وہ سن کر اپنی مستعدی ظاہر کرتے رہے اور کہتے رہے: { لَوْ نَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ} [الأنفال: 31] ’’ہم چاہیں تو اس جیسا بنالیں یہ تو صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ‘‘ پہلے جواب میں اور اس سے پہلے بھی ہم مفصل بتا چکے ہیں کہ وجہ تحدی اسلوب کلام ہے اور بس۔ اب تک فصاحتِ قرآن پر بحث چلی آرہی ہے، قرآن کے مثل لانے پر عرب کی آمادگی کا ذکر ہوا ہے، اس کے بعد ملاحظہ ہو۔ سورت سے کیا مراد ہے؟ نوٹ: اس اعتراض میں سورۃ کا لفظ آیا ہے۔ غالباً اصل معترض اور نقال نے بھی تحقیق نہیں کیا ہوگا کہ مقام تحدی میں سورۃ سے کیا مراد ہے؟ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ سورۃ سے مراد اتنا ٹکڑا ہے جس کو ایک خطبہ، لیکچر یا باصطلاح تعلیم جواب مضمون کہتے ہیں۔ قرآنی سورتوں کو سورۃ کہنا الگ اصطلاح ہے اور سورۃ متحدیہ الگ اصطلاح ہے ۔ فافھم فإنہ دقیق۔ پس کسی ایک آدھ جملے کا ذکر کرنا اصل مبحث سے دور ہے۔ سورت فاتحہ وغیرہا کا قرآن سے ہونا اور ان غیر قائلین کا اپنے خیال سے رجوع کرنا ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں۔[1] فانظر ھناک
Flag Counter