Maktaba Wahhabi

202 - 411
کلام نہیں بلکہ سبوحی (ملائکہ) نے ایسا کہا تھا۔ میں نے تو ان کا کلام نقل کیا ہے۔ پس ایک جواب تو یہی ہے کہ باوجود معترض اور ناقل کی صد کوشش کے پورا شعر جس کو بیت کہتے ہیں ایک بھی نہیں بنا۔ ہاں کچھ کم و بیش کر کے ایک مصرعہ بنا جو شعر نہیں۔ اصل جواب جو فردوسی کے قصہ سے ماخوذ ہے یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ در اصل خدا کے ہیں آنحضرت کے نہیں۔ اور قرآن مجید کی آیت زیر بحث میں آنحضرت کی شعر گوئی کی نفی ہے خدا کی صفت (شعر گوئی) کی نفی نہیں۔ یعنی آیت میں یہ ذکر نہیں کہ خدا کو شعر کہنا نہیں آتا۔ خدا کو تو ہر قسم کے علوم حاصل ہیں بلکہ دنیا میں جتنے علوم مروج ہیں سب خدا کی تعلیم سے ہیں۔ غور سے سنیے! { وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ} [البقرۃ: 255] ’’دنیا کے لوگ کچھ نہیں جان سکتے مگر وہی جو خدا چاہے۔‘‘ پس اصل معترض اور ناقل کو لازم ہے کہ آیت موصوفہ پر غور کرکے اپنے اعتراض کو واپس لیں۔ اعتراض (ب) قرآن میں جھوٹ بھی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے کہ ہم نے قرآن میں کسی بات کے متعلق تفریط سے کام نہیں لیاہے، اور دوسری جگہ لکھا ہوا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کو ہم نے قرآن میں بیان نہ کیا ہو۔ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر تک قرآن میں نہیں ہے۔ مثلا مسائل اصولیہ، طبعیہ، ریاضیہ، طبیہ اور حوادث یومیہ کاذکر قرآن میں واقع نہیں ہے۔ پس قرآن نے جس بات کا دعویٰ کیا ہے وہ مطابق واقع نہیں ہے۔‘‘ (ص: 71)
Flag Counter