Maktaba Wahhabi

225 - 411
میں کہ ’’زید شیر ہے۔‘‘ لفظ ’’شیر‘‘ مستعار ہے۔ یعنی مانگا ہوا۔ اور ’’زید‘‘ مستعار لہ ہے ۔ یعنی مانگا ہوا اُس کے لیے۔ اور لفظ شیر کے معنی مستعار منہ ہے۔ یعنی مانگا ہوا اُس سے۔ ’’اور اصطلاح میں استعارہ معنہائے مجازی اور حقیقی کے اس علاقہ کو کہتے ہیں جو برسبیل تشبیہ ہو۔ اور اگر یہ علاقہ بر سبیل تشبیہ نہ ہو تو اس کو مجاز مرسل کہتے ہیں۔‘‘ استعارہ کی مشہور اقسام: ’’پس اگر مشبہ بہ مذکور ہو اور مشبہ متروک تو اس کو استعارہ تصریحیہ کہتے ہیں۔ مثلاً ماہؔ اور آفتابؔ کہیں اور اس سے معشوق یا اس کا رخسار مراد لیں۔ اور اگر مشبہ بہ کو ترک کردیں اور مشبہ کو ذکر کردیں تو اس کو استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ ’’اس امر کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ استعارہ میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مشبہ مشبہ بہ کا عین ہوتا ہے۔ خواہ مشبہ بہ مذکور ہو جیسا استعارہ تصریحیہ میں، یا متروک ہو جیسا استعارہ بالکنایہ میں، اوردونوں صورتوں میں مشبہ بہ کو مستعار منہ کہتے ہیں اور اس لفظ کو جو مشبہ بہ کے معنی پر دلالت کرے مستعار، اور مشبہ کے معنی کو مستعار لہ کہتے ہیں۔ ‘‘ (ص: 77) برہان: اس اقتباس میں بحیثیت مصنف پادری صاحب سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ استعارہ کا ذکر پہلے کیا اور تشبیہ کا ذکر پیچھے کیا ہے۔ حالانکہ تشبیہ کا مقام مقدم ہے۔ بہت خوب! استعارہ اور تشبیہ کی یہ تعریف ہمیں منظور ہے۔ آگے چلیے:
Flag Counter