Maktaba Wahhabi

226 - 411
تقابل: ’’اس قدر سمجھنے کے بعد اب ذیل کے اشعار کو قرآن شریف کے استعارات سے مقابلہ کرکے دیکھو کہ غرابت کے اعتبار سے قرآن شریف کی آیتوں سے کہیں آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ کثیر عزہ کہتا ہے کہ أخذنا بأطراف الأحادیث بیننا وسالت بأعناق المطي الأباطح ترجمہ:’’جب کہ ہم طرح طرح کی گفتگو میں باہم مشغول تھے تو اسی وقت ہماری سواریاں سیلاب کی طرح تیز دوڑنے لگیں۔‘‘ اس شعر میں مستعار ’’سالت‘‘ ہے اور مستعارمنہ سیلان السیول ہے (یعنی سیلاب کا بہنا) اور مستعار لہ اونٹوں کا چلنا ہے اور وجہ جامع غایت سرعت اور سہولت ہے۔ اس شعر کے استعارہ میں بعینہٖ وہی غرابت ہے جو قرآن کی آیات بالا کے {اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا} اور {جَنَاحَ الذُّلِّ} میں ہے۔ یعنی اگر آیات بالا میں ’’اشتعال‘‘ کو ’’شیب ‘‘ کی طرف نسبت دیاجاتا اور ’’جناح‘‘ کو شخص مخاطب کی طرف تو اس استعارہ میں کوئی غرابت پیدا نہ ہوجاتی اور مبتذل سمجھا جاتا۔ لیکن ’’اشتعال‘‘ کو ’’رأس‘‘ کی طرف اور’’جناح‘‘ کو ’’ذل‘‘ کی طرف نسبت دینے سے غرابت پیدا ہوگئی ۔ یعنی یہ کہ ’’بال سارے کے سارے سفید ہوگئے‘‘ا ور ’’تمام دل سے عاجزی اختیار کر‘‘۔ اسی طرح اگر شعربالا میں ’’سالت‘‘ کو ’’المطي وأعناقہا‘‘ کی طرف منسوب کرتا اور کرنا چاہیے تھا تو اس استعارہ میں کوئی خوبی (غرابت) پیدا نہ ہوتی بلکہ مبتذل سمجھا جاتا۔ لیکن ’’سالت‘‘ کو ’’أباطح‘‘ کی طرف نسبت دے کر اس میں یہ خوبی پیدا کردی کہ گویا اونٹوں سے تمام روڈ بھر گئے۔‘‘ (ص: 77، 78)
Flag Counter