Maktaba Wahhabi

229 - 411
’’والمعنی الثاني یجب أن لا یکون مصرحا بہ۔‘‘[1] یعنی دوسرے مرادی معنی لفظوں میں بالکل مذکور نہ ہوں۔ یہ ہے صنعت ’’ادماج‘‘ جس کو آپ تدبیج کہتے ہیں۔ اس صنعت کو علمائے اصول فقہ ’’اقتضاء النص‘‘ کہتے ہیں ، یعنی ایسے معنی جو الفاظ سے مفہوم ہوں مگر مذکور نہ ہوں۔ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں۔ ہم یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں: ٭{ لَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ} [الإسراء: 23] ’’ماں باپ کو اُف نہ کہو۔‘‘ اس آیت میں ماں باپ کو اُف (ہوں؟) کہنے سے منع ہے مگر صنعت ’’ادماج‘‘ (اقتضاء النص) یہ ہے کہ گالی بھی نہ دو، مارو بھی نہیں، بے ادبی بھی مت کرو وغیرہ۔ ٭ دوسری مثال اس کی یہ ہے: { وَ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ} [النسائ: 11] ’’جس میت کے ماں باپ ہی وارث ہوں اس کی ماں کا ثلث ہے۔‘‘ اس آیت کے صریح الفاظ میں ماںکا ثلث حصہ بتایا ہے۔ صنعت ادماج سے باقی باپ کا ہوا جو مذکور نہیں۔ قرآن مجید میں اس صنعت کی مثالیں بکثرت ہیں۔ نصاب شہادت کے ماتحت ہم دو پرکفایت کرتے ہیں۔ صنعت تجنیس: پادری صاحب نے اس صنعت پر بھی توجہ فرمائی ہے اور بڑے تبحر علمی سے قرآن میں اس کے ہونے سے انکار کیا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’صنعت تجنیس: اس کی تعریف یہ ہے کہ دو لفظ یا اس سے زیادہ باہم ہم شکل ہوں اور معنی کے لحاظ سے باہم مختلف ہوں، یہ صنعت بھی قرآن
Flag Counter