Maktaba Wahhabi

270 - 411
1 اس سے مراد وہ تمام باتیں ہیں جن کے متعلق خدا نے حکم دیا ہے۔ 2 اگر بنی اسرائیل خدا کی بیان کردہ نعمتوں پر شاکر ہیں توخدا ان کوجزا دے گا۔ 3 حسن کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جو اس آیت میں ہے کہ {وَ بَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا} اور یہ کہ {لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ} إلی قولہ {وَ لَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ} 4 جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد خدا کی فرمانبرداری و ترک معاصی ہے اور جنت میں داخل کرنا ہے۔ 5 اس عہد سے مراد آنحضرت پر ایمان لانا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد اول ص:319) (سلطان التفاسیر، ص: 144) برہان: ہم نہیں جان سکتے کہ علما مفسرین نے اس بیان میںکیا غلطی کی؟ ان تمام نمبرات کا مضمون در حقیقت ایک ہی ہے کہ خدا کے احکام کی حفاظت اور تعمیل کرو جیسا کہ تم بنی اسرائیل نے اقرار کیا ہوا ہے، اور میں اس کا بدلہ دوں گا، جیسا کہ میں (خدا) نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ چنانچہ مروجہ تورات کی تیسری کتاب (احبار) میں لکھا ہے: ’’اگر تم (بنی اسرائیل) میری شریعتوں پر چلوگے اور میرے حکموں کو حفظ کروگے اوران پر عمل کروگے تو میں تمھارے لیے وقت پر مینہ برسائوںگا، اور زمین اپنی بڑھنی تم کو دے گی اور بعد ان کے درخت اپنے پھل تم کو دیں گے۔‘‘ (احبار باب 25:3) کیسا صاف حکم ہے اور کس قدر واضح وعدہ الٰہی ہے؟ آئیے! اب ہم آپ کو بتائیں کہ قرآن شریف نے بھی یہی فرمایا ہے۔ غور سے سنیے! { وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ
Flag Counter