Maktaba Wahhabi

280 - 411
پادری صاحب نے اپنی تائید میں انجیل کے حوالے سے ایک جملہ بھی لکھا ہے: ’’جو شکایت آنحضرت ( علیہ السلام ) کو یہود سے تھی بعینہٖ وہی شکایت حضور مسیح کی[1] تھی۔‘‘(ص:148) ہوگی، بُرے لوگوں کی شکایت ہرنیک بزرگ کو ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس میں خصوصیت سے یہود کو ملزم نہیں بنایا بلکہ جملہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے چاہے یہودی ہوں یا عیسائی۔ کسے باشد۔ جس میں یہ عیب ہوگا وہی مخاطب ہوگا۔ صلوۃ اور زکاۃ کا معنی: پادری صاحب نے صلوۃ، زکوۃ اور راکع کے معنے میں بھی تصرف کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ جس صلوۃ (نماز) اور زکوۃ (خیرات) کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ نماز اور خیرات ہے جو یہودی مذہب میں رائج تھیں نہ کہ وہ نماز اور خیرات جو مسلمانی مذہب میں رائج ہیں، کیونکہ اس آیت میں مخاطب یہودی ہیں نہ کہ مسلمان۔‘‘ (ص: 149) برہان: قرآن شریف میں ’’الصلوۃ‘‘اور ’’الزکوۃ‘‘ سے مراد وہی ہے جو قرآنی اصطلاح میں نماز اور زکوۃ ہے۔ کیونکہ قرآن شریف ایک مذہبی کتاب ہے، یہ اپنی اصطلاحات خاص رکھتا ہے۔ چنانچہ شروع میں فرمایا: { ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ} [البقرۃ: 2، 3] چونکہ شروع سورت میں یہ ذکر آچکا ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت
Flag Counter