Maktaba Wahhabi

314 - 411
بندر دھتکارے اور پھٹکارے ہوئے۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جس طرح استاد کسی شاگرد کی تعلیم میں ہر طرح کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ بالکل توجہ نہیں کرتا اور کچھ سیکھنا نہیں چاہتا تو آخر استاد کہہ دیتا ہے کہ جا گدھا بن۔‘‘ (بیان للناس جلد اول ص:511) اہلحدیث: امثال میں بے شک الفاظ کی حقیقت مراد نہیں ہوتی مگر امثال ہر زبان میں سماعی ہوتی ہیں یعنی ہر زبان والے جس حیوان کو جس وصف میں مشہور جان کر انسان کو اس سے تشبیہ دیں وہی مثل صحیح ہوگی۔ امثال میں قیاس جاری نہیں ہوسکتا۔ مثلاً حماقت کے وصف میں گدھا مشہور ہے پس کسی انسان کو حماقت کی وجہ سے گدھا کہہ سکتے ہیں مگر گھوڑا نہیں کہہ سکتے یعنی استاد غبی شاگرد کو گدھا کہہ سکتا ہے، ’’جا گھوڑا بن‘‘ نہیں کہہ سکتا کیونکہ گھوڑا باوجود بے عقل ہونے کے اس وصف میں مشہور نہیں، اس لیے اس کے ساتھ تشبیہ بھی جائز نہ ہوگی۔ پس سنیے! چونکہ بندر عرب میں کسی قسم کی بد اخلاقی سے اس درجہ مشہور نہیں ہے جس میں مثال کے طو رپر کسی انسان کو بندر کہاجائے، مدعی کا فرض ہے کہ عرب کے لٹریچر سے اس کی ایک ہی مثال پیش کرے ورنہ کہا جائے گا کہ قرآن شریف کی یہ تفسیر ، عربی زبان کے خلاف تفسیر بالرائے ہے۔ چونکہ بندر کے ساتھ کسی قسم کی بداخلاقی میں تمثیل نہیں دی جاتی اس لیے قرآن مجید کی آیت موصوفہ کے معنی وہی صحیح ہوں گے جو مفسرین نے کیے ہیں مگر ان معنی کے بتانے سے پہلے ایک قانون قدرت کا بتانا ضروری ہے جو قرآن مجید ہی کے لفظوں میں مذکور ہے: {اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ} [البقرۃ: 117] ’’خدا جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو بس اسے صرف اتنا کہتا ہے کہ
Flag Counter