Maktaba Wahhabi

327 - 411
کردیا۔ اس جگہ {قَتَلْتُمْ} کا لفظ ماضی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص سچ مچ[1] قتل ہوگیا تھا۔ اور اس قتل سے جانبرنہیں ہوا تھا۔ اگر ایک شخص کے متعلق ہم کو معلوم ہوکہ وہ مقتول ہوچکا ہے ، لیکن اس کے بعد ہم اسے اس زمین میں تندرستی کے ساتھ چلتا پھرتا دیکھ لیں تو ایسے شخص کو کوئی بھی مقتول نہیں کہے گا، حاصل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو مقتول فرمادیا تو یقینا ثابت ہوا کہ وہ اس قتل سے جان بر ہو کر دوبارہ اس دنیا میں نہیں بسا۔‘‘ (تفسیر بیان للناس، ص:520،521) برہان: کیسا واضح اور تاریخی دعویٰ ہے مگر اس کا ثبوت متکلم کے خیال اور دماغ سے باہر کہیں نہ ملے گا، نہ بائبل سے، نہ قرآن سے، نہ تاریخ بنی اسرائیل سے۔ خیر! ہم اسے چھوڑتے ہیں مگر ناظرین سے درخواست کرتے ہیں کہ اس اقتباس میں فقرہ زیر خط ’’وہ شخص سچ مچ قتل ہوگیا تھا‘‘ کو ذہن میں رکھیں اور آئندہ آنے والی عبارت انھیں مفسر صاحب کی پڑھیں۔ آپ نے آیت {اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا} کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’جب کسی شخص کا تنفس بند ہوجاتا ہے اور دل کی حرکت رُک جاتی ہے تو دوبارہ تنفس قائم کرنے کے لیے یہ عمل بھی کیا جاتا ہے کہ اس بے ہوش آدمی کو کسی اونچی جگہ پر لٹا دیتے ہیں اور چار آدمی دو اس کے ہاتھوں کو اور دو اس کے پائوں کو پکڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک شخص اس کے ایک ہاتھ کو اس کے سینے پر لگاتا ہے اور جب وہ اسے اٹھا لیتا ہے تو دوسرے ہاتھ والا بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ پائوں والے آدمی بھی اس کی ایڑیوں کو باری باری اس کے چوتڑوں پر مارتے ہیں۔ اس تدبیر سے کبھی کبھی
Flag Counter