Maktaba Wahhabi

329 - 411
(سچ مچ؟) قتل کیا تھا۔ (نہیں توبہ، میں سکتہ میں ہوگیا تھا) اسی کو کہتے ہیں ’’کوہ کندن وکاہ بر آوردن‘‘[1] علاوہ اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ سکتہ تو ایک مرض ہے جس میں نہ مریض کا اختیار ہے نہ کسی دوسرے کا تو پھر اس سے اس (سکتہ) کے متعلق سوال کیوں ہوا؟ {اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا} غور سے پڑھو اور اس نے ہوش میں آکر نام کس کا بتایا ہوگا؟ نیز وہ سچ مچ مقتول کیونکر ہوا؟ مولوی عبداللہ چکڑالوی نے قتل نفس وغیرہ کے متعلق تو وہی کہا ہے جو سرسید مرحوم نے کہا ہے لیکن ایک بات میں سرسید سے بھی آگے بڑھ گئے یعنی {اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ} کے متعلق چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں: ’’جولوگ اس جگہ {اِنَّ مِنْھَا} کی ضمیر پتھروں کی طرف پھیرتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ {خَشْیَۃِ اللّٰہِ} صفت ہے زندہ ذوی العقول کی اور پتھروں میں نہ تو زندگی ہے اور نہ یہ ذوی العقول ہیں اور نہ مکلف ہیں پس جب یہ مکلف اور ذوی العقول نہ ہوئے اور ان کے واسطے عذاب معین من اللہ نہ ہوا تو وہ خوف کس چیز کا کریں گے؟‘‘ (قرآن مجید ترجمہ چکڑالوی ص:57) برہان: اس آیت کا ترجمہ جو چکڑالوی صاحب نے کیا ہے وہ بہت ہی لطیف ہے۔ فرماتے ہیں: ’’{اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ} الخ‘‘ بعض سخت پتھروں سے البتہ وہ ہے کہ جاری ہوتی ہیں اس سے بڑی بڑی نہریں اور تحقیق بعض پتھروں سے
Flag Counter