اس کے ذیل میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل کتاب کی طرف سے ایک سوال پیش کرکے جواب دیا ہے اس لیے پادری سلطان محمد صاحب اس سوال کو قوی اور جواب کو ضعیف بتاتے ہیں۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
’’سوال بہت زبردست ہے لیکن جواب بہت کمزور ہے۔ ‘‘ (سلطان ص:416)
اس لیے ہم بھی اصل سوال و جواب پیش کرکے حقیقت حال واضح کرتے ہیں۔
المسئلۃ الأولی:
’’یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہودی آنحضرت کی نبوت سے واقف تھے۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تورات برسبیل تواتر نقل ہوتی آئی ہے۔ لہٰذا یا تویہ کہا جائے کہ آنحضرت کی تعریف برسبیل تفصیل تورات میں موجود ہے یعنی یہ کہ آپ کی صورت یوں ہوگی، اور سیرت یوں ہوگی اور فلاں سال میں اور فلاں مکان میں آپ پیدا ہوں گے۔ اور یا یہ کہا جائے کہ آپ کی صفت اس طریق پر تورات میں موجود نہیں ہے۔ بس اگر صورت اول درست ہے تو گویا یہودیوں نے بحیثیت قوم تورات کی شہادت کو جان کر آنحضرت کی نبوت سے جھوٹ موٹ انکار کیا۔ لیکن یہ کس طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اہل تواتر جھوٹ پر بالکل متفق ہوجائیں اور اگر آنحضرت کی صفت اس طرح نہیں تو تورات کے اوصاف سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت رسول ہوں۔ تو خدا نے یہ کس طرح کہا کہ {فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ}
جواب:
’’اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت کی صفت تورات میں اجمالی طور پر تھی، اور آنحضرت کی نبوت کو صرف ان اوصاف کی وجہ سے نہیں پہچان سکتے
|