Maktaba Wahhabi

381 - 411
اعتراض: اس رکوع میں سب سے وزنی اعتراض پادری صاحب نے جو کیا ہے اس کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس یہودیوں کے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ۔ تمام صحف مطہرہ کو پڑھ ڈالیے ان کی احادیث اور مفسرین کی کتابوں کو مطالعہ کیجئے آپ کو ایک جملہ بھی ایسا نہیں مل سکے گا جس کا یہ مفہوم ہو کہ یہودی یا یہودیوں کا کوئی فرقہ جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے یا سمجھتے ہیں۔‘‘ (سلطان ص:422،423) برہان: میں کہتا ہوں اصل بات یہ ہے کہ معترض قرآن شریف کو قرآن کے الفاظ میں نہیں دیکھتے بلکہ جلدی میں قرآن مجید کو غیر معتبر روایات کے یا اپنے خیالات کے تابع کرتے ہیں۔ سنیے! قرآن شریف نے اس قول کو کسی فرقہ یا قوم کا قول قرار نہیںدیا بلکہ جملہ شرطیہ کے طور پر کہا ہے: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ} [الاٰیۃ] جس کا ترجمہ ہی بتلارہا ہے کہ اس میں کسی فرقہ یاجماعت کی طرف اس خیال کو منسوب کرنا منظور نہیں بلکہ شرطیہ کلام ہے کہ جوکوئی جبرئیل کا دشمن ہو۔ یہ نہیں فرمایا: ’’قالت الیھود أو قالت طائفۃ من الیھود‘‘ ہاں اب یہ سوال ہوگا کہ ایسا کہنے کی ضرورت کیا ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی روایات میں ایسا ملتا ہے کہ یہودیوں کے مدرسہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ گئے تو وہاں ایک شخص نے کہا جبرئیل ہمارا دشمن ہے۔[1] اس مقام پر دو صورتیں تھیں: 1۔ ایک یہ کہ اس ایک شخص کے قول کو سب کے سر تھوپا جاتا۔ ایسا کرنا تو علاوہ بے
Flag Counter