Maktaba Wahhabi

382 - 411
انصافی کے زیادہ ثبوت طلب ہوتا۔ 2۔ دوم یہ کہ اس غلط خیال کو جملہ شرطیہ کی شکل میں ظاہر کیا جاتا۔ چنانچہ کمال احتیاط اور انصاف سے جملہ شرطیہ کی شکل میں اظہار ناراضگی کیا گیا۔ تمثیل: علامہ عبدالکریم شہر ستانی نے اپنی ملل میں لکھا ہے کہ کسی وقت شیعہ میں ایک فرقہ تھا جس کا یہ عقیدہ تھا کہ جبرئیل کافر ہے کیونکہ اس نے نبوت پہنچانے میں خیانت کی ہے، نبوت حضرت علی کا حق تھا، اس نے محض بد دیانتی سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دے دی۔ ’’فکفروہ‘‘ انھوں نے جبرئیل پر کفر کا فتویٰ لگایا۔[1] آج کل کوئی سنی عالم وعظ میں کہہ دے کہ سب شیعہ یا ان میں کا کوئی گروہ جبرئیل کو خائن کہتا ہے تو اس پر سخت بار ثبوت ہوگا۔ ا س لیے بطور مشروط کلام کے یوں کہیے کہ’’جو کوئی جبرئیل کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔‘‘ تو ایسا کہنے والے سے یہ سوال نہ ہوگا کہ ایسا کہنے والا دنیا میں تو کوئی نہیں، اگر ہے تو بتائو؟ اگر کوئی شخص ایسا سوال کرے گا تو وہ سنی واعظ اس کو جواب دے گا۔ سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست نیچری معاصر: مولوی احمد الدین امرتسری نے اس مقام میں جو مظاہرہ کیا ہے وہ قابل دید و شنید ہے۔ آپ نے ہاروت و ماروت کو ملکین سے ملادیا ہے ۔ یعنی حسب خیال یہود آپ کے نزدیک {ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ} ملکین سے بدل ہے ۔ پھر ’’ما‘‘ کو حرف نفی کہہ کر ترجمہ مثبت کا کیا ہے جو فی نفسہٖ قابل دید ہے ۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’اکثر یہود حضرت موسیٰ کو خدا سا جانتے تھے اور بالعموم نصاریٰ حضرت
Flag Counter