Maktaba Wahhabi

394 - 411
کرسکتا۔ تیسری مثال سنیے! حضرت مسیح فرماتے ہیں: ’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا کہ اپنے پڑوسی سے دوستی رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت ۔‘‘ (متی 5:43) اس حکم میں دشمن سے عداوت رکھنی کم سے کم جائز معلوم ہوتی ہے، یعنی دشمن کے گزند سے پر حذر رہنا سابقہ شریعت میں جائز تھا۔ اس کا ذکر کر کے حضرت مسیح فرماتے ہیں: ’’پر میں تمھیں کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو۔‘‘ (حوالہ مذکور) یہ ارشاد مسیح سابقہ حکم ’’دشمن سے دشمنی رکھنے‘‘ کو اٹھاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک پر عمل ہوگادوسرے پر نہ ہوسکے گا۔ اس سے ثابت ہو اکہ مسیح نے پہلے حکموں کو منسوخ کردیا، یعنی ان پر عمل کرنا ممنوع قراردیا، یہی نسخ ہے۔ کیا پادری صاحب! اب تو آپ کو صحف مطہرہ میں نسخ مل گیا ؟ کیا سچ ہے نگاہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی ادھر لا ہاتھ مٹھی کھول یہ چوری یہیں نکلی سوال: سردست ہم یہ تین مثالیں پادری صاحب کے غو رکرنے کو پیش کرکے پوچھتے ہیں: 1۔ کیا یہ صحیح ہے کہ ناسخ منسوخ میں نسبت تباین ہوتی ہے؟ 2۔ کیا یہ آپ کو مسلم ہے کہ موجبہ ضروریہ کی نقیض ممکنہ سالبہ ہوتا ہے؟ 3۔ کیا یہ بھی ٹھیک ہے کہ دائمہ مطلقہ کی نقیض مطلقہ عامہ ہوتا ہے؟ ان مسلماتِ منطق کے ماتحت احکام ثلاثہ سابقہ اور انجیلیہ میں کیا نسبت ہے؟ امید ہے کہ پادری صاحب ہماری پیش کردہ مثالوں پر غور کرکے نیز نسخ اور تکمیل میں فرق جان کر اپنی سابقہ رائے کو یوں تبدیل فرمائیں گے کہ ’’ صحف مطہرہ میں مسئلہ نسخ کا پتہ ملتا ہے‘‘ اگر پتہ لگ جائے تو ہماری محنت کی داد دیجیے کہ ہم نے
Flag Counter