Maktaba Wahhabi

421 - 411
اس وقت ہونا چاہیے جس وقت ابراہیم مسلمان نہ ہوں۔ کیا ایسا وقت بھی ہے جس میں وہ مسلمان نہ ہوں؟ (سلطان التفاسیر ص:518) برہان: جواب یہ ہے کہ صیغۂ امر دو طرح سے استعمال ہوتا ہے: 1۔ انشائِ فعل کے لیے۔ 2۔ استمرار کے لیے۔ مثلاً کسی بیٹھے کو کہا جائے: کھڑا ہوجا۔ یہ حکم انشائِ فعل کے لیے ہے۔ 3۔ کسی کھڑے کو کہا جائے: کھڑا رہ۔ یہ حکم استمرار کے لئے ہے۔ اردو اور فارسی میں ان دونوں موقعوں کے لیے الگ الگ صیغے ہیں۔ اردو کی مثال تو ابھی گذری ہے۔ فارسی میں صیغۂ امر پر لفظ ’’مے ہمے‘‘ بڑھا دیا جاتا ہے: 1قائم باش۔(2) قائم مے باش۔ مگر عربی زبان میں صیغہ امر دونوں موقعوں کے لئے ایک ہی آتا ہے۔ جو قرینہ سے اپنے معنی بتادیتا ہے ۔ قرآن مجید سے شہادت لینا چاہو تو سنو! {یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ} [سورۃ النسائ:135] ’’اے لوگو! جو ایمان لاچکے ہو ایمان پر پختہ رہو۔‘‘ اس تشریح کے بعد ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو جس وقت یہ حکم {اَسْلِمْ} ہوا تھا یقینا آپ مسلم تھے۔ چنانچہ ان کا جواب بصیغہ ماضی {اَسْلَمْتُ} ہی بتارہا ہے۔ پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اے ابراہیم فرمانبرداری پر پختہ رہنا۔ حضرت ممدوح جواب میں عرض کرتے ہیں: حضور بندۂ پروردہ درگاہ تو عرصہ سے فرمانبردار ہو چکا ہے آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ اس تشریح کے ساتھ پادری صاحب کا اعتراض یا سوال ھباء منثورا ہو گیا۔
Flag Counter