Maktaba Wahhabi

75 - 411
طرف نازل کیا تو پوچھ لیا کر ان لوگوں سے جو پڑھا کرتے ہیں کتاب تجھ سے پہلے۔(یونس۔ ع11)‘‘ (المائدہ، جنوری 32ء ص:5۔11) برہان: اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر کلام کی تفسیر دو طرح کی ہوتی ہے: ٭ ایک متکلم کے حسب منشا۔ ٭ دوم مفسر کے حسب منشا۔ یعنی متکلم کے منشا کو نظر انداز کر کے مفسر اپنے منشا کے ماتحت جو چاہتا ہے تفسیر کرتا ہے۔ عربی اصولِ کلام میں ایک قانون ہے: ’’تأویل الکلام بما لا یرضی بہ قائلہ باطل‘‘ یعنی کسی کلام کی تاویل ایسی کرنی جو متکلم کے خلافِ منشا ہو غلط ہے۔ پادری صاحب کی تفسیر جتنی منصہ ظہور پر آئی ہے اسے دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی تفسیر قسم ثانی میں داخل ہونے کی وجہ سے بے شک ایسی ہے کہ ’’کوئی مسلمان ایسی تفسیر نہیں لکھ سکتا۔‘‘ اس کی مثال: انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا قول ہے: ’’مبارک وے جو صلح کرنے والے ہیں کیونکہ وے خدا کے فرزند کہلائیں گے۔‘‘ (انجیل متی باب 5 کی دس) اس قول کی حسب منشاءے قائل یہ تفسیر ہے کہ ’’صلح کن اورصلح جو خدا کے مقرب بندے ہوں گے۔‘‘ (آمنا و صدقنا) دوسری قسم کی تفسیر: ’’صلح جو اور صلح کن بجائے اپنے باپوں کے خدا کے ولد بن جائیں گے۔ پس وہ ولدیت لکھاتے ہوئے ’’ولد اللہ‘‘ لکھایا کریں۔‘‘
Flag Counter