Maktaba Wahhabi

77 - 411
کیونکہ اس میں قرآن شریف کے مضامین پر مخالفانہ قبضہ کر کے اپنے ناظرین کو ’’عدم ضرورتِ قرآن‘‘ کا یقین دلانا ہے۔ سلطان التفاسیر کا لب ولہجہ بالکل مسلمانہ ہے مگر اُسی طرح جس طرح اُن لوگوںکا تھا جو بظاہر مومن اور بباطن منکر تھے۔ ہمارے خیال میں عیسائیوں کا ایسا کرنا عیسائیت کی حیثیت سے کچھ قبیح نہیں۔ کیونکہ یہی قاعدہ ہے پائے بوسِ سیل از پا افگند دیوارہا[1] سلطان التفاسیر میں حل لغات بھی ہے۔ ترجمہ بھی ہے۔ اقوال مفسرین بھی ہیں۔ بظاہر قرآن کی تعریف بھی ہے۔ لیکن مقصد ان سب باتوں سے وہی ہے کہ یہ قرآن کوئی مستقل الہامی کتاب نہیں، جو کچھ اس میں خوبی ہے وہ بائبل سے ماخوذ ہے۔ ساتھ ہی اس کے سندِ روایت کے لحاظ سے قرآن کوئی مستند کتاب بھی نہیں۔ ہمارا فرض: ان سب حالات میں ہمارا فرض یہ نہ ہوگا کہ ہم ان کی سطر سطر کا جواب دیں، بلکہ یہ ہوگا کہ اُن کے غلط استشہاد کا جواب دیں اور غلط نتیجہ کی تردید کریں اور بس۔ چنانچہ اسی اصول سے آج ہم شروع کرتے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کا شانِ نزول: پادری صاحب نے سورہ فاتحہ کے شان نزول کے متعلق اختلاف لکھ کر نتیجہ نکالا ہے: ’’فاتحہ جیسی عظیم الشان سورت کی جائے نزول میں اختلاف ہونا فی الحقیقت از بس حیرت انگیز امر ہے۔ علی الخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مؤرخینِ قرآن کریم اُس کی ایک نہایت معمولی اور چھوٹی سے چھوٹی آیت کی جائے نزول پر نہ صرف اُنگلی رکھ کر بتلاتے ہیں بلکہ اُس کے دن یا رات میں نازل ہونے، زمستان یا تابستان میں اُترنے، سفر میں یا حضر
Flag Counter