Maktaba Wahhabi

78 - 411
میں وارد ہونے وغیرذلک کو نہایت و ضاحت کے ساتھ بتلاتے ہیں۔ جب سورہ فاتحہ کے ساتھ، جو ام القرآن (قرآن کی ماں) اور قرآن العظیم کہلاتی ہے، ایسی بے اعتنائی کا سلوک جائز رکھنا کہ اُس کی جائے نزول لکھنے تک کا کوئی مؤرخ فکرمند نہ ہو تو بجز اس کے ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کا تعلق قرآن کے کسی حصہ کے ساتھ نہیں ہے۔‘‘ (سلطان التفاسیر، ص: 2) برہان: سب سے پہلے آپ کو شان نزول کے متعلق علماء مفسرین سے معلوم کرنا چاہیے تھا کہ وہ شانِ نزول کو قرآن کی ذات کے لیے جزو یااُس کے فہم کے لیے مدار جانتے ہیں یا ایک زائد بات سمجھتے ہیں۔ شانِ نزول میں بہت سا حصہ راویانِ کلام کے فہم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے شانِ نزول کا اختلاف قرآن کی کسی سورت یاآیت کی ذات میں خلل انداز نہیں ہو سکتا۔ (مفصل کے لیے دیکھو: فوز الکبیر شاہ ولی اللہ قدس سرہ)[1] اس کے بعد ہم بتاتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کے متعلق جمہور راویان کلام کا یہ قول ہے کہ یہ مکی ہے، اسی لیے اس کے سر پر ’’مکیۃ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو: تفسیر خازن۔ فتح البیان۔ روح المعانی وغیرہ و قرآن مطبوعہ۔[2] صاحب روح المعانی نے ایک روایت نقل کی ہے جو فیصلہ کن ہے کہ یہ سورت مکیہ ہے: عن أبي میسرۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم: (( کان إذا برز سمع منادیا ینادیہ یا محمد، فإذا سمع الصوت انطلق ھاربا فقال لہ ورقۃ بن نوفل: إذا سمعت النداء فاثبت
Flag Counter