Maktaba Wahhabi

87 - 411
برہان: یہ ماضی احتمالی کے صیغے پڑھ کر ہمیں اس کی مثال یاد آئی۔ کچھ مدت کا ذکر ہے ایک نوجوان مجرد خوبصورت عیسائی ہوگیا، تو اُس کے مخالفوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چند روز پہلے گرجا میں گیا ہوگا۔ وہاں برہنہ جوان لیڈیوں کو دیکھا ہوگا، ان میں سے کسی پر فریفتہ ہوا ہوگا، پھر اُس سے طالب ہوا ہوگا، اُس نے کہا ہوگا کہ تم عیسائی ہو جائو تو مراد پالو گے، اس لالچ میں وہ جوان عیسائی ہوا ہوگا۔ ہمارے خیال میں ماضی شکیہ کے صیغے نہ یہ ٹھیک ہیں نہ پادری صاحب کے احتمالی صیغے صحیح۔ کیونکہ قرآن مجید نے ان احتمالات کی تردید علی الاعلان اُسی زمانہ میں کردی تھی جس زمانہ کا ذکر پادری صاحب آج کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے والے کا یہ بھی فرض ہے کہ تفسیر لکھنے سے پہلے قرآن کے مضامین پر ایک جامع نظررکھے تاکہ کہیں ٹھوکر نہ لگے۔ پس غور سے سنئے! { وَ مَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ} [العنکبوت: 48] ’’(اے رسول ) تم (نزول قرآن سے ) پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے بلکہ بوجہ امی محض ہونے کے اپنے ہاتھ سے کسی کتاب کو چھوتے بھی نہ تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو جھوٹ بہتان لگانے والے فوراً لوگوں میں شک پھیلاتے۔‘‘ کہتے پھرتے کہ پڑھا لکھا آدمی ہے، کتابوں سے مضمون اخذ کرکے لوگوں کو سناتا ہے۔ یہ جواب اُس وقت شائع کیا گیا جس وقت پادری صاحب کے ہم مذہب عیسائی شاعر اورکتب سابقہ سے مضمون بنانے والے عیسائی اہل علم بھی زندہ تھے۔ اگر پادری صاحب کی ماضی شکیہ کچھ حقیقت رکھتی تو وہی اہل علم تکذیب کرنے کو کھڑے ہو جاتے۔ اور صاف کہتے: واہ صاحب !
Flag Counter