Maktaba Wahhabi

96 - 411
’’باسمک اللھم‘‘ لکھنے اور پھر ’’بسم اللہ‘‘ لکھنے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے آخر میں ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے لکھنے کی کیا ضرورت اور کیا مصلحت تھی؟ شروع ہی سے آپ بسم اللہ الخ کیوں لکھتے نہیں آئے ہیں؟‘‘ برہان: محدثین کے اصول سے یہ روایت اس قابل نہیں کہ اس پر توجہ کی جائے۔ کیونکہ بصیغۂ مجہول ’’رُوِي‘‘ روایت مجہولہ ہے۔ لیکن ہم پادری صاحب کو بے جواب رکھ کر ملول خاطر کرنا نہیں چاہتے۔ یار کا پاس نزاکت دلِ ناشاد رہے نالہ رکتا ہوا تھمتی ہوئی فریاد رہے سو جواب یہ ہے کہ سورہ اقرأ کے ساتھ بسم اللہ تو اتری تھی لیکن حضور نے اس کا استعمال عام نہ سمجھا تھا۔ یہی خیال تھا کہ سور ہ پڑھنے سے پہلے پڑھ لیا کریں لیکن جب حضرت سلیمان کے خط کے شروع میں آیت بسم اللہ الخ دیکھا تو آپ نے بھی اس کا استعمال عام جاری فرمادیا۔ یہاں تک کہ اب مسلمانوں میں کھانا کھانے، پانی پینے، کپڑے پہننے وغیرہ اوقات میں بھی بسم اللہ پڑھنا سنت ہے۔ فاندفع ما أورد پس یہ روایت اگر کچھ ہے تو عام استعمالِ نزول کے بر خلاف ہے۔ نزول کے برخلاف نہیں۔ پس آپ کا یہ مندرجہ ذیل نتیجہ خود غلط ہے جو یہ ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ بسم اللہ الخ نہ تو ابتدائے نبوت کا الہام ہے اور نہ وسط نبوت کا اور نہ ہی اختتام نبوت کا۔ بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہنی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ جس کو فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں بعبارت بالا بیان کیا ہے۔‘‘
Flag Counter