Maktaba Wahhabi

97 - 411
جواب: اصل بات یہ ہے کہ آپ کو نہ تحقیق سے غرض ہے نہ تنقید سے، بلکہ مسیحیوں میں پادری عمادالدین کے بعد کا خادم القرآن کہلانا مقصود ہے۔ پادری صاحب نے بڑی محنت سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ بائبل سے ماخوذ ہے۔ اس کا ثبوت آپ کو بائبل سے تو ملا نہیں، البتہ قرآن کی مذکورہ آیت { اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} [النمل: 30] سے دیا ہے۔ اس کے سوا ایک روایت تفسیر کبیر سے ثعلبی کی نقل کی ہے جس میں ذکر ہے کہ بسم اللہ بعد سلیمان علیہ السلام کے کسی پر نہیں اتری۔[1] (سلطان، ص:10) ہمارے یہ کسی طرح خلاف نہیں ہے کیونکہ قرآن شریف کا یہ دعویٰ نہیں کہ میں کوئی جدید تعلیم لے کر آیا ہوںبلکہ وہ صاف صاف بتاتا ہے: { وَاِِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ} [الشعرائ: 196] بے شک یہ قرآن پہلے نبیوں کے صحیفوںمیں تھا۔ پس ہم مانتے ہیں کہ عربی الفاظ ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ کا ترجمہ حضرت سلیمان کو الہام ہوا ہوگا بلکہ اگر یہ بھی کہہ دیں کہ سارے نبیوں کو ہوا ہوگا تو اسلام اور قرآن کے خلاف نہیں، اس لیے کہ قرآن شریف کا یہ دعوے نہیں کہ میری تعلیم نئی ہے ۔ ہاں یہ دعوی ہے کہ عربی اسلوب میرا خاص ہے۔ سو اس کی تردید یوں ہو سکتی ہے کہ پادری صاحب یا کوئی اور صاحب ’’بسم اللّٰه الرحمن الرحیم‘‘ بعینہٖ کسی سابق کتاب میں دکھادیں ۔ ودونہ خرط القتاد! (یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے)
Flag Counter