Maktaba Wahhabi

112 - 194
نہ کہ لغت ہذیل کے مطابق[1] اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ غلطی لہجہ قرآن کی غلطی تصور ہو۔[2] باقی رہی وہ غلطی جو ادا اور کیفیت نطق سے متعلق ہے جیسے مد اور قصر فتح اور امالہ، اظہار و ادغام وغیرہ تو اس میں عربوں کے بہت سے مختلف لہجات ہیں ان سب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل نہیں کیا بلکہ ان میں سے فصیح اور عمدہ کو اختیار کیا ہے مثال کے طور پر:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک شخص کو پڑھا رہے تھے تو اس نے ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاَئِ وَالْمَسَاکِیْن﴾ (التوبۃ: 60) بغیر مد کے پڑھا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں پڑھایا ، اس نے پوچھا کس طرح پڑھایا ؟تو انھوں نے ’’اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاَئِ وَالْمَسَاکِیْن‘‘ کو مد کے ساتھ پڑھا ۔ اس کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے غلطی شمار کیا ہے اور ایسے اسلوب کے ساتھ پڑھنے والے کو آگاہ کیا جو اس کے لیے شوق عنایت کا باعث بنے ۔ اسی طرح اس کی مثال طبقات القراء میں دانی کی زربن حبیش سے روایت ہے: کہتے ہیں ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پڑھا (طہ) اور مد نہیں کی تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے طہ مد کے ساتھ پڑھا اور کہا: اللہ کی قسم مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھا یا ہے ۔ اللحن: قراء نے لحن کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔لحن جلی اور لحن خفی ،لحن جلی کی سب سے عمدہ تعریف یہ ہے: ایسی غلطی جو الفاظ کی ادائیگی میں نمایاں ہو ،چاہے اس سے معنی میں خلل آئے یا نہ آئے اور وہ اس قدر ظاہر ہو کہ اہل تجوید اور غیر اہل تجوید اس کو پہچان لیں ۔ پہلی صورت کی مثال حرکات میں سے کسی کا تبدیل ہو جانا جیسے ’’انعمت‘‘ کو تاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھنا یا اس کو کسرہ دے دینا ایسے ہی ﴿مَاقُلْتُ لَہُم﴾ (المائدۃ: 117) میں تا کو فتحہ کے ساتھ
Flag Counter