Maktaba Wahhabi

28 - 194
ابن ابی حاتم[1]، ابن جریر [2] اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ [3] نے نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ جب وحی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کا تکلم فرماتے ہیں اور جب کلامِ وحی کا ظہور ہوتا ہے تو خوف خدا سے آسمانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، جب اہل آسمان اس کو سنتے ہیں تو بے ہوش ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں سب سے قبل جبریل علیہ السلام اپنا سر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت وارادہ کے مطابق جبریل علیہ السلام سے وحی کا کلام کرتے ہیں۔‘‘[4] تب یہ بات ثابت ہوئی کہ جبریل علیہ السلام امین وحی ہیں اور انہوں نے قرآن مجید اللہ تعالیٰ سے سن کر حاصل کیا، پس سلسلہ سماع کی انتہامقام الوہیت پہ ہوئی تویہ کس قدر عظمت و جلالت والا سلسلہ ہے! اسی تعظیم کے پیش نظر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے حفص بن سلیمان کو فی کے طریق سے اپنی سند کو ’’معرفۃ القراء‘‘ میں ذکر کیا ہے جو کہ رب العالمین پہ ختم ہوئی ہے۔[5] اور یہی ابن جرزی رحمہ اللہ کی کلام کا مطلب ہے جوانہوں نے مقدمہ میں کہی: چونکہ اس کو الٰہ نے ہے نازل کیا اور یوں ہی اس سے ہے ہم تک پہنچا یعنی تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی قرآن کو نازل فرمایا ہے۔ یہ چند باتیں ہم نے سورہ قیامہ کی تفسیر میں بھی ذکر کی ہیں۔ پس تجوید قرآن ایک جلیل القدر سلسلہ کے ذریعے ہم تک اللہ تعالیٰ سے حاصل شدہ ہے، طریقہء ادا اور قراءت کی کیفیت سے ہم یہی تجوید ہی مراد لیتے ہیں لہٰذا تجوید القرآن کی اصطلاحی تعریف یوں ہو گی: قرآن مجید کو اس کیفیت وادائیگی کے ساتھ پڑھنا جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھا ہے۔
Flag Counter