Maktaba Wahhabi

61 - 194
بہتر ہے۔ عمر و بن دینار سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ کی طرف لکھا اَمّا بعد: سنت اور عربیت کی فقہ حاصل کرو اور قرآن کو فصاحت کے ساتھ (غلطی سے پاک ) پڑھو بے شک یہ عربی ہے۔ [1] یہ اوامر (حکم ) و جوب کے لیے ہیں کیونکہ جو شخص قرآن مجید کی غلطی میں پڑجاتا ہے وہ اس کی ادائیگی نہیں کرسکتا قرآن الفاظ اور معانی کا مجموعہ ہے۔ الفاظ کو اسی کیفیت میں ادا کیا جائے جس طرح وہ نازل ہوا ہے یعنی اسی نطق و صورت پہ پڑھا جائے جس پہ نازل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اور پڑھایا کیونکہ اس کے الفاظ کی ادائیگی اس کیفیت کے علاوہ ممکن ہی نہیں ۔ کوئی اور لہجہ و صورت اس کے مخالف اور بعید از عربی ہوگی اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی میں نازل فرمایا تو اس کا نطق بھی عربی لہجہ کے مطابق ہو گا اس لیے کہا جاتا ہے۔ ’’اعربوہ فھوعربی‘‘ اس کو وضاحت کے ساتھ غلطی سے مبرا پڑھو، یہ عربی ہے۔ ( الاعراب ) کا معنی وضاحت و فصاحت بھی ہے اوریہ دونوں تحقیق حروف، تصحیح نطق اور حرکات (فتحہ،ضمہ،کسرہ)کی تحقیق کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتے۔ پس قاری سے جس غلطی کا امکان ہوتا ہے، وہ یا تو تحقیق حروف کی غلطی ہے یعنی ایک حرف کو دوسرے سے ممتاز نہیں کیا جاتا اور حرف مخرج صحیح سے ادا نہیں ہوتا جیسا کہ ذ، ث، س ،ظ، ذ، ز ،د،ض ،ظ ، ح، ھ میں واقع ہوتا ہے۔ یا پھر حرف کے نطق کی کیفیت میں خلل ہوتا ہے مثلاً ادغام و اظہار ، فتح وامالہ، قصرو مد وغیر ہ یا پھر حرکات اعراب میں خلل واقع ہوتا ہے جیسے مفتوح کو مضموم ، مکسور کو مفتوح ، متحرک کو ساکن اور ساکن کو متحرک کردینا ، اسی کا حکم اور مسائل مفصل طور پر آرہے ہیں ۔ [2]
Flag Counter