Maktaba Wahhabi

151 - 172
’’اور ہم ہی ہوائیں چلاتے ہیں(جو بادلوں کے پانی سے)بھری ہوئی(ہوتی ہیں)اور ہم ہی آسمان سے بارش برساتے ہیں اور ہم ہی تم کو اُس کا پانی پلاتے ہیں اور تم تو اس کا خزانہ نہیں رکھتے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ بعض ہوائیں بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتی ہیں اور وہ بارش برساتی ہیں۔بعض ہوائیں درختوں کو بار آور کرتی ہیں جس کے بعد ان درختوں سے پتے اور کونپلیں پھونٹنے لگتی ہیں۔جبکہ جدید سائنس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بعض مادہ پودوں یا درختوں کی بار آوری میں ہوا،پانی،کیڑے مکوڑے،پرندے اور حیوانات جیسے عوامل شامل ہیں اور ان سب میں سے زیادہ مؤثر عامل ہوا ہے،جو طویل فاصلوں تک درختوں کی بار آوری کے لیے بُور اٹھائے پھرتی ہے۔ 4۔دو دریاؤں میں آڑ: سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: } مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ . بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْغِیٰنِ}[الرحمن:۱۹،۲۰] ‘’اسی نے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں۔دونوں میں ایک آڑ ہے کہ(اس سے)تجاوز نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ نمکین اور کڑوے پانی میں نمکیات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ میٹھے پانی میں نمکیات کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں پانیوں کی کثافت کا فرق انھیں آپس میں ملنے نہیں دیتا۔سمندر کے اندر بعض جگہ میٹھے اور کھارے پانی کے الگ الگ ذخیرے سائنسی اصول کے عین مطابق ہیں۔
Flag Counter