Maktaba Wahhabi

45 - 172
علماء ہی انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام دینار ودرہم کی وراثت نہیں چھوڑتے بلکہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں پس جس نے(جتنا)علم حاصل کیا اس نے انبیاء علیہم السلام کی وراثت سے اتنا ہی زیادہ حصہ پایا۔‘‘ 3۔مجاہد کے برابر: قرآنِ مجید کا علم سکھانے والوں کا درجہ مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔سنن ابن ماجہ،صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ((مَنْ جَآئَ مَسْجِدِيْ ہَذَا لَمْ یَأْتِہٖ اِلَّا لِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُہٗ أَوْ یُعَلِّمُہٗ فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَاہِدِ فِيْ سَبِیلِ اللّٰہِ،وَمَنْ جَآئَ لِغَیْرِ ذَٰلِکَ فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ الرَّجُلِ یَنْظُرُ اِلـٰی مَتَاعِ غَیْرِہٖ)) (سنن ابن ماجہ:۱-۱۸۶،صحیح الترغیب:۸۳،صحیح الجامع:۶۱۸۴) ’’جو شخص بھلائی سیکھنے یا سکھانے کی غرض سے میری اس مسجد میں آئے تو اس کا درجہ مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے اور جو شخص اس کے علاوہ کسی دوسرے(دنیاوی)مقصد کے لیے آئے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کی نظر دوسرے کے مال پر ہو۔‘‘ 4۔ہر چیز کی دعائیں: قرآن سکھانے والوں کے لیے فرشتے اور زمین و آسمان کی دیگر تمام مخلوقات حتیٰ کہ بلوں میں چیونٹیاں اور پانی میں مچھلیاں بھی ان کے لیے دعا کرتی ہیں،جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا،ان میں سے ایک عالم اور دوسرا عابد تھا،
Flag Counter