Maktaba Wahhabi

135 - 180
کاندھوں پر آگیا ہے جس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسؤل ہوگی۔ اور بلاشبہ ہراُمت افراد پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کا ذمہ دارہے تو علماء و فضلاء پر ذمہ داری، ان کی استعداد کے مطابق عائد ہوتی ہے اور عوام پر ان کی صلاحیت کے مطابق الغرض ((بلغوا عنی ولو آیۃ )) کے عموم سے یہ بات ثابت ہے کہ اس ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں جسے ناظرہ پڑھنا آتا ہے وہ آگے ناظرہ پڑھائے اور جسے کوئی دعایاد ہے وہ آگے یا دکروائے جس نے حفظ کیا ہے وہ دوسروں کو یاد کروادے جسے ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو ترجمہ پڑھا دے حتیٰ کہ اگر کسی کو ایک آیت بھی یاد ہو تو وہ اسے دوسروں کو یاد کروانے کا مکلف ہے یا قرآن مجید کی کسی ایک آیت یا سورت کا مفہوم معلوم ہو اور اسے آگے پہنچا دے تو یہ بھی تبلیغ قرآن میں شامل ہے۔ اگرچہ اس مقدس اور عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری اُمت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے وہ اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک قرآن مجید کا متن اور اس کا مفہوم کائنات کے اطراف و اکنا ف تک نہ پہنچا دیا جائے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جواُمت قرآن مجید کو اقوام واُمم عالم تک پہنچانے کی ذمہ دار بنائی گئی تھی آج وہ خود اس بات کی محتاج ہو چکی ہے کہ اس کو (قرآن مجیدکو) پہنچایا جائے لہٰذا اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر مسلمان کمربستہ ہو جائے اور قرآن مجید کو درجہ بدرجہ سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے۔ اور اسی سکھانے کوتبلیغ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے مدارج و مراتب و پہلو بہت زیادہ ہیں حتیٰ کہ تعلیم بھی تبلیغ کا ایک مؤثر شعبہ ہے اور تبیین بھی اسی کا ایک بلند تردرجہ ہیں۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کو یہ بھولا ہوا سبق( تبلیغ قرآن) سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان قرآن و حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ خطوط پر چل کر ہم تبلیغ قرآن کا حق بھی ادا کر سکیں اور اس کے ثمرات بھی حاصل کر سکیں۔ 1۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا: کسی بھی معاشرہ کا بگاڑ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک (امر بالمعروف اور نہی عن
Flag Counter