Maktaba Wahhabi

89 - 180
’’وہ (اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی آواز کو قرآن مجید کے ساتھ لمبا کرتے۔ ‘‘ جوکہ وقار اطمینان و خشیت کو واضح کرتا ہے اور تکلف و تصنع کو اور بناوٹ و غلو کو دور کرتا ہے۔ اسی لیے علامہ ابن الجزری نے بھی قاری کی تعریف یہی کی ہے : مُکَمَّلًا مِنْ غَیْرِ مَا تُکَلُّفِ بِاللُّطْفِ فِی النُّطْقِ بِلَا تُعَسُّفِ [1] قاری قرآن عمدہ ادائیگی کرنے والا (صحیح تلفظ کو ادا کرنے والا) اور تکلف اور بے راہ روی سے بچنے والا (تجوید کے خلاف نہ پڑھنے والا) ہوتا ہے‘‘ …اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید کو پڑھتے وقت اس صفت کواپنانے کی توفیق دے جو رب کو راضی کرے اور ریاکاری و دکھلاوے سے بچائے اور خوبصورت سے خوبصورت پڑھنے کی توفیق دے۔ آمین 3۔ قرآن مجید کو یاد کیا جائے اور روزانہ کامعمول بنایا جائے : قرآن مجید کے حفظ کا سلسلہ نہایت ہی مبارک اور حفاظت قرآن کی ربانی تدابیر میں سے ایک تدبیر ہے جس کی طرف توجہ و انہماک کی اشد ضرورت ہے ایک وقت تھا کہ ایک ایک گھر میں کئی کئی حافظ تھے اور وہ گھرانا منحوس سمجھا جاتا تھا جس میں کوئی ایک شخص بھی حافظ قرآن نہ ہو۔ آج بھی اگرچہ قرآن مجید کے لاکھوں حافظ ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ حفظ ایک رواج بن گیا ہے۔ قرآن مجید تو اس لیے حفظ کرنا تھا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ہدایت لے سکیں اور رات کی تاریکیوں میں اس سے محظوظ ہو سکیں لیکن نتیجہ پھر اس رواج کا یہ نکلتا ہے کہ جو دکھاوے و ریاکاری کے لیے یاد کیا ہوتا ہے یاد کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ اس کے لیے مصیبت بن جاتا ہے اور دین کیا سمجھنا و ہ داڑھی کو بھی کٹوا دیتا ہے لیکن ہے حافظ۔ دُنیا کا اِمام کیا اس نے بننا ہے وہ باجماعت کا مقتدی بھی نہیں رہ جاتا بلکہ نمازیں بھی چھوڑ دیتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید یاد کیا جاتا اور جس نے حفظ کیا ہوتا اس کو مقدم کیا جاتا تھا چنانچہ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ گئے اور قباء کی جگہ ٹھہرے
Flag Counter