Maktaba Wahhabi

69 - 418
خوف سے دب جاتا(اور) پھٹ جاتا۔‘‘[1] یعنی پہاڑ نصیحت قبول کرلیتا اور اللہ کے خوف کا اس پر اس قدر زبردست اثر ہوتا کہ اس کی چٹانیں چٹخ کر ریزہ ریزہ ہوجاتیں۔ خشوع کا مطلب ہے: بے بسی سے جھک جانا، یعنی تم اس پہاڑ کو دیکھتے کہ وہ بلندی سے زمین پر آگرا ہے۔ تَصَدُّع کا مطلب ہے :پھٹ جانا، ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا،یعنی وہ متزلزل ہوجاتا اور اللہ کے خوف سے ٹکڑے ٹکڑے(ریزہ ریزہ) ہوجاتا۔[2] جب حالت یہ ہے کہ اگر پہاڑ بھی قرآن کو اس طرح سمجھ سکتا جس طرح تم سمجھ سکتے ہو تو وہ اپنے طول وعرض اور سختی و مضبوطی کے باوجود بلندی سے اتر کر نشیب میں آجاتا اوراللہ کے ڈر سے ریزہ ریزہ ہوجاتا،پھر تم اللہ کے حکم کو سمجھتے ہو اور اس کی کتاب پر غور و تدبر کرتے ہولیکن اس کے باوجود تم پراللہ کاخوف طاری ہوتا ہے نہ اس کے حضور جھکنے کا کوئی داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ اے انسانو! کیا تمھارا یہ طرز عمل تمھارے شایانِ شان ہے؟[3] اس آیت کا مقصود قرآن کریم کی عظمت کا اظہار اور اس کے جلیل القدر نصائح پر غوروفکر کی ترغیب دینا ہے، اس لیے کہ اس کے بارے میں کوئی شخص کوئی عذر پیش نہیں کرسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا حق اس وقت ہی ادا ہوسکتا ہے جب اس کی کتاب کی تعظیم اور اس شخص کو سرزنش کی جائے جو قرآن عظیم کا احترام نہیں کرتا۔ انسانوں اورجنوں کو ایک چیلنج قرآن کی عظمت اوراس کی اونچی شان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور
Flag Counter