Maktaba Wahhabi

116 - 871
((إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْراً کِتَابُ اللّٰہِ تَعَالیٰ)) [1] (رواہ الشیخان والبیہقي) [بلا شبہہ زیادہ مستحق چیز جس پر تم اجرت لو،وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے] متاخرین حنفیہ نے اسی حدیث سے اجرت لینے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔اہلِ مدینہ،شافعی،نصیر،عصام،ابو نصر اور ابواللیث رحمہ اللہ علیہم طاعات پر اجرت لینے کو جائز سمجھتے ہیں،جیسے تعلیمِ قرآن و فقہ،امامت،اذان،تذکیر،حج اور غزوہ وغیرہ ہیں۔واللّٰہ أعلم۔ خارجہ بن الصلت کے چچا نے ایک مجنون پر صبح و شام تین دن تک فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔وہ اچھا ہو گیا تو قوم نے سو بکریاں دیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَعَمْرِيْ! لَمَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلَۃٍ لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ)) [2] (أخرجہ أحمد وأبو داؤد والنسائی) [اللہ کی قسم! کھالو،لوگ تو غلط دم جھاڑ کے عوض کھاتے ہیں،تم نے تو صحیح دم پر اجرت لی ہے] باطل دم وہ ہے جس میں ستاروں کا ذکر اور چاند،سورج،ستاروں اور جنوں سے استعانت کی گئی ہو یا جن میں رمل و جفر کا دخل ہو۔رہا وہ دم جو کلام اللہ سے ہو یا حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو وہ حق ہے،اس کی اجرت اکلِ حلال ہے۔ طبِ روحانی ایک زبردست طریقۂ علاج ہے: علامہ قسطلانی نے شرح بخاری میں کہا ہے: ’’الطب الروحاني أقویٰ من الطب الجسماني،فلما عز ھٰذا الفن،فزع الناس إلی الطب الجسماني،ویشیر إلی ھٰذا قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : لَوْ أَنَّ رَجُلاً مُوْقِناً قَرَأَ الْقُرْآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَزَالَ،وَقَالَ: خُذْ مِنَ الْقُرْآنِ مَا شِئْتَ لِمَنْ شِئْتَ‘‘[3] [طبِ روحانی طبِ جسمانی سے زیادہ طاقت ور ہے۔جب یہ فن کم یاب ہوگیا تو لوگ طبِ جسمانی کی طرف لپکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے: اگر کوئی آدمی یقین کے ساتھ پہاڑ پر قرآن مجید پڑھے تو وہ اپنی جگہ سے زائل ہو جائے،پھر
Flag Counter