Maktaba Wahhabi

118 - 871
استعاذہ اور بسم اللہ کی فضیلت کا بیان استعاذہ: استعاذے میں اجازت طلب کرنے اور دروازہ کھٹکھٹانے کی حکمت ہے۔جو کوئی بادشاہ کے دروازے پر آتا ہے،وہ بغیر اجازت کے اندر نہیں جاتا۔اسی طرح قاریِ قرآن جب اپنے حبیب کے ساتھ مناجات میں دخول کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ زبان کو فضول کلام اور بہتان سے پاک کر کے آئے۔اہلِ معرفت نے کہا ہے کہ یہ کلمہ (تعوذ) مقربین کا وسیلہ،ڈرنے والوں کی مضبوط پناہ،ہلاک ہونے والوں کی امید،انکساری کرنے والوں کی خندہ پیشانی کا سبب اور سورۃ النحل میں اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کی اطاعت گزاری ہے: ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ [النحل: ۹۸] [پس جب تو قرآن پڑھے تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر] اس سے مراد جمہور کا مختار قول یہ ہے:’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ اور یہی سب سے مضبوط روایت ہے۔کہتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام سب سے پہلے یہی استعاذہ اور بسم اللہ لائے تھے،پھر ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ﴾ لائے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے اِجلالِ قرآن اور بسم اﷲ کو مفتاحِ فرقان کہا ہے۔[1] بسم اللہ: 1۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مرفوعاً بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ((کَانَ جِبْرِیْلُ إِذَا جَائَ بِالْوَحْيِ أَوَّلُ مَا یُلْقِيْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ)) [2] (أخرجہ الدارقطني)
Flag Counter