Maktaba Wahhabi

189 - 871
ظاہری و باطنی فضیلت رکھتے ہیں۔ پھر بعض الفاظ کے متعلق کہا ہے کہ اتنی اتنی تعداد میں ان کی قراء ت یا مداومت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت حاصل ہوتی ہے،سو یہ بھی ایک منفعت ہے،لیکن اس سے اس صیغے کی روایتاً فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ پھر بعض علماے راسخین کا یہ مختار ہے کہ درود کے الفاظ میں مسنون اور مرفوع الفاظ پر اقتصار و اکتفا کرنا چاہیے۔بہ خوف ابتلا،اطرا،اغراق اور مبالغہ اپنی طرف سے درود کے الفاظ ترتیب نہیں دینا چاہیے،اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہہ ہر مدح و نعت کے مستحق ہیں،کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا کمال ادب ہے اور یہ طریقہ صحیح احادیث کے مطابق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَاریٰ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ)) [1] (الحدیث أو کما قال صلی اللّٰه علیہ وسلم) [میری مدح میں ایسا مبالغہ نہ کرنا،جیسے نصاریٰ نے ابن مریم کی مدح میں مبالغے سے کام لیا] پھر بعض اہلِ علم نے درود کے ایسے الفاظ اختیار کیے ہیں،جن میں مختلف احادیث کے مطابق درود کے جملہ آدابِ مطلوبہ کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ان الفاظ کے جامع ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہہ ہے نہ ان کے پڑھنے ہی میں کوئی حرج ہے،کیوں کہ وہ اتم و اعم اور اکمل و اشمل طریق پر واقع ہیں،لیکن اس کے باوجود ان الفاظ کو جو فضیلت حاصل ہے،جو ترکیبِ نبوت کے ساتھ صحاح و سنن میں آئے ہیں،مذکورہ بالا الفاظ ان پر مختار نہیں ہو سکتے،اس لیے کہ اس صورت میں کلامِ امت کی کلامِ رسولِ امت پر ترجیح لازم آتی ہے۔کہاں اس شخصیت کا کلام جس کی شان یہ ہے: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی* اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ [اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے] اور کہاں اس شخص کا کلام جس کی طرف وحی آئی اور نہ وہ معصوم ہی ہے۔ جوہرجام جسم ازطینت کان دگر است تو توقع زگل کوزہ گراں میداری درود پڑھنے کے افضل اوقات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی فضیلت اور استحباب کل احوال اور تمام اوقات میں ہے،لیکن
Flag Counter