Maktaba Wahhabi

207 - 871
پالے،ان کی پرورش کرے،ان کو روزی دے،ان کی مرادیں پوری کرے،ان کی حاجتیں بر لائے،ان کی بلائیں ٹالے اور ان کی حیات،موت اور دوبارہ جی اٹھنے کا بندوبست کرے۔سو یہ اللہ ہی کی شان ہے نہ کہ کسی مخلوق کی،خواہ وہ مقبولِ بارگاہ خداوندی ہو،جیسے انبیا و مرسلین،اولیا،شہدا اور صالحین،یا وہ کوئی مردودِ درگاہ ہو،جیسے شیاطین،اَوثان،اَصنام،بھوت،پری،اَشجار،اَحجار،قبور،فساق اور فجار وغیرہ۔ ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ کی تفسیر: لفظ ﴿مٰلِکِ﴾ کی ایک قراء ت’’مَلِکِ‘‘ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت،سورۃالفاتحہ کے آغاز میں اپنی الوہیت،ربوبیت اور ملک کا ذکر فرمایا،جس طرح اس کی آخری دو سورتوں،سورۃ الفلق اور سورۃ الناس میں انھیں ہر سہ اوصاف کو بیان کیا ہے۔حاصل یہ کہ ان اوصاف کا اکٹھا ذکر اوّل قرآن میں آیا ہے،پھر آخر قرآن میں بھی۔اب جو بندہ اپنا خیرخواہ ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس جگہ خصوصی توجہ صرف کرے اور اس جگہ بحث کرنے میں خوب جد و جہد کرے اور یہ جان لے کہ علیم و خبیر اللہ نے قرآن مجید کے اوّل و آخر میں ان اوصاف کو اسی لیے جمع کیا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بندوں کو ان صفات مذکورہ کی معرفت حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ان صفات میں سے ہر صفت ایک جداگانہ معنی رکھتی ہے۔ایک معنی ایک صفت میں ہے اور دوسری صفت میں دوسرے معانی ہیں،جیسے یہ الفاظ’’محمد رسول اللہ‘‘،’’خاتم النبیین‘‘ اور’’سید ولد آدم‘‘ کہ ان میں سے ہر وصف کے معنی دیگر اوصاف سے مختلف ہیں۔ جب یہ بات معلوم ہوئی کہ لفظِ’’اللہ‘‘ الہٰ کے معنی میں ہے اور الہٰ معبود کے معنی میں ہے،پھر جس نے اللہ تعالیٰ کو پکارا،اس کے نام پر جانور ذبح کیا اور اس کی نذر مانی تو اس نے گویا اللہ کو پہچان لیا اور سمجھ لیا کہ یہ کام اسی کے لیے سزاوار ہیں۔اگر اس شخص نے کسی دوسری طیب یا خبیث مخلوق کو پکارا،اس کے لیے جانور ذبح کیا،گو ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا ہو،یا اس کی منت مانی ہو،گویا اس نے مخلوق کو اپنا اللہ یعنی معبود مان لیا اور اس شخص کی مثال بنی اسرائیل جیسی ٹھہری کہ انھوں نے گوسالہ (بچھڑے) کو پوجا۔ہر عابد کا گوسالہ وہی ہے جو اللہ کے سوا اس کا معبود ٹھہراہے،وہ شجر ہو یا حجر،فرشتہ ہو یا ستارہ،جن ہو یا بشر،قبر ہو یا کسی کی چلہ گاہ،وہ کوئی مکان ہو یا کوئی اور نشان و
Flag Counter