Maktaba Wahhabi

278 - 871
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم مقدمہناسخ ومنسوخ کے معانی کا بیان اس میں چند مسائل ہیں : 1۔نسخ کی تعریف: لغت میں نسخ کا معنی ابطال و ازالہ آتا ہے اور اسی سے ہے:’’نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظِّلَّ وَالرِّیْحُ آثَارَ الْقَوْمِ‘‘ [سورج نے سائے کو اور ہوا نے آثارِ قوم کو زائل کر دیا] اور اسی سے’’تَنَاسُخُ الْقُرُوْنِ‘‘ [صدیوں کا گزرنا] ہے اور کبھی اس کا معنی نقل وتحویل ہوتا ہے اور اسی سے ہے:’’نَسَخْتُ الْکِتَابَ أَيْ نَقَلْتُہُ‘‘ [میں نے کتاب کو نسخ یعنی نقل کیا] اور اسی معنی میں اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ [الجاثیۃ: ۲۹] [بے شک ہم لکھواتے جاتے تھے،جو تم عمل کرتے تھے] اور اسی سے’’تَنَاسُخُ الْمَوَارِیْثِ‘‘ [میراثوں کا تناسخ] ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں معانی (ابطال و ازالہ) میں نسخ حقیقت ہے یا ان دونوں میں سے ایک میں نہ کہ دوسرے میں۔صفی ہندی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اہلِ علم کی اکثریت اس پر ہے کہ ازالے میں حقیقت ہے اور نقل میں مجاز۔قفال شاسی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ نقل میں حقیقت ہے،جب کہ باقلانی رحمہ اللہ،عبدالوہاب رحمہ اللہ اور غزالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ دونوں میں حقیقت ہے اور دونوں میں لفظاً مشترک ہے،کیونکہ دونوں میں مستعمل ہے۔اہلِ اصول کی اصطلاح میں اس کی تعریفات میں طویل بحث کے بعد اس کا معنی و تعریف’’شرعی حکم کو اس کے مثل سے ناسخ کی منسوخ سے تاخیر کے ساتھ اٹھا لینا ہے۔‘‘ شاہ ولی اﷲ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے’’الفوز الکبیر في أصول التفسیر‘‘ میں لکھا ہے کہ فنِ تفسیر کے مشکل مقامات میں سے،جن کے مباحث بہت ہیں اور ان میں بے شمار اختلاف ہے،
Flag Counter